ریاستی چیف منسٹروں کا موقف

   

جمہوریت اک طرزِ حکومت کہ جس میں
انساں کو گنا کرتے تولا نہیں کرتے
ریاستی چیف منسٹروں کا موقف
ہندوستان کی جملہ آبادی کا 15% حصہ رکھنے والے مسلمانوں کو یکا و تنہا کرنے کی سازش کرنے والوں کو بہت جلد منہ کی کھانے پڑے گی۔ کئی ریاستوں کے چیف منسٹروں نے بل پر عمل آوری سے انکار کردیا ہے۔ مگر مرکز نے ان ریاستوں کو خبردار کیا ہے کہ انہیں بل پر عمل آوری کو یقینی بنانا ہی ہوگا۔ اس طرح مرکز، ریاستوں کے درمیان تصادم کی نوبت آئے گی۔ متنازعہ قانون کو اپنی ریاستوں میں نافذ کرنے سے جن 6 ریاستوں کے چیف منسٹروں نے انکار کیا، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ مرکز کی مودی حکومت کو مستقبل کے تعلق سے کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اس نے یکطرفہ طور پر بل کو منظور کرواکر کئی محاذوں پر بحث چھیڑ دی ہے۔ اس قانون کے ذریعہ ملک کے دستور کو پامال کیا جارہا ہے۔ یہ بل مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ہندوستان کی دیرینہ روایات کے خلاف ہے۔ پڑوسی ملکوں کے مذہبی امتیازات کا شکار افراد کو ہندوستان میں پناہ دینے کے لئے یہ بل لیا گیا جس سے ہندوستان کی ساری زمین دہل چکی ہے۔ ہندوستان کو ایک مناسب قانون اور مناسب حکمرانی کی ضرورت ہے، اس کے بجائے ایک متنازعہ قانون اور متعصب حکمرانی کے ذریعہ طوفان بدتمیزی برپا کی گئی ہے۔ پانچ سال کے لئے اقتدار حاصل ہونے کے بعد یہ ہندوتوا طاقتیں بے قابو ہوچکی ہیں۔ شہریت ترمیمی بل کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس سے مذہبی و وابستگی کی بنیاد پر شہریت دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس سے ہندوستان کی سالمیت کو خطرہ ہوگا۔ ملک کی سالمیت کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ میں بل کے خلاف داخل کی گئی درخواستوں کا آیا جائزہ لیا جائے گا۔ صدرجمہوریہ کی جانب سے بل کو دی گئی منظوری بھی اس وقت موضوع بحث ہے۔ صدرجمہوریہ سے درخواست کی جائے گی کہ وہ اس بل کو مسترد کرنے کے لئے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کریں تو ایسا نہیں ہوگا۔ صدرجمہوریہ وہی کریں گے جو حکمران طاقت چاہے گی۔ پارٹی نظریات سے بالاتر ہوکر صدرجمہوریہ کو غور کرنا ہوگا۔ اس ملک کو پرامن طریقہ سے چلانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کی سطح پر عوام کی مذہبی تقسیم کو روکا جائے۔ ہندوستان کے دستوری قوانین14 ، 15، 21 کی روسے اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ ملک کے شہریوں کے ساتھ کسی بھی معاملہ میں مذہب کے نام پر تفریق نہیں کی جائے گی۔ یہ ملک قانون سے چلے گا۔ اگر قانون کو ہی توڑ مروڑ کر رکھ دیاجائے تو پھر امن و امان اور نظم و نسق کا مسئلہ سنگین ہوجائے گا۔ ملک کو قانون کے ذریعہ چلانے کے بجائے کسی کی غنڈہ گردی سے چلانے کی کوشش کی گئی تو پھر ملک کے حالات مزید حساس ہوجائیں گے۔ مذہب کے نام پر لانے کیلئے اس قانون کی ہر گوشے سے مذمت ہورہی ہے تو حکومت کو اس آگ سے کھیلنے کا شوق فوری ترک کرنا ہوگا۔ شہریت ترمیمی بل اگر مذہب کے نام پر بھید بھاؤ پیدا کرے گا تو دستور کی پامالی کے واقعات دن بہ دن قوی اور افسوسناک رخ اختیار کرجائیں گے۔ ہندوستان کو ساری دنیا میں ایک تہذیب والا ملک مانا جاتا ہے۔ انسانی اقدار کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور بغیر کسی امتیاز کے دور دراز سے آنے والے پناہ گزینوں کو آسرا دیا جاتا ہے۔ ملک کے یہی اہم اقدار ہیں جو مودی حکومت میں پامال کئے جائیں گے۔ بل کو صدرجمہوریہ کی منظوری ملنے کے بعد قانون بن گیا ہے۔ بدبختی سے یہ ایک ایسا قانون ہے جس پر بحث شروع ہوچکی ہے۔ اس طرح کے قانون کا ہندوستان کی نئی نسل کے ذہنوں پر جو اثر پڑے گا اور ان کے دماغ پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے یہ ہندوستان کی روح کیلئے مناسب نہیں ہوں گے۔