ریلی میں بھگدڑ‘ ذمہ دار کون ؟

   

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
ٹاملناڈو کے شہر کرور میں کل رات اداکار سے سیاستدان بننے والے وجئے کی پارٹی ٹی وی کے کی ریلی میں بھگدڑ مچ گئی اور اس میں 40 افراد کی جان چلی گئی ۔ کہا گیا ہے کہ ایحک سو سے زائد افراد زخمی حہوگئے ہیں۔ جنوبی ہند کا یہ کلچر رہا ہے اور روایت رہی ہے کہ یہاں فلمی ستاروں کے مداح اور پرستار والہانہ جذبات رکھتے ہیں اور ان کے تعلق سے بہت زیادہ پرجوش بھی ہوتے ہیں ۔ جنوبی ہند میں اکثر و بیشتر سیاستدان ایسے رہے ہیں جنہوں نے فلموں میں کام کیا تھا ۔ انہوں نے فلمی دنیا کی مقبولیت اور چکاچوند کو سیاسی میدان میں کیش کروایا ہے ۔ خود ٹاملناڈو میں ایم جی رامچندرن رہے ‘ جئے للیتا رہیں ‘ متحدہ آندھرا پردیش میں این ٹی راما راؤ رہے ‘ چرنجیوی رہے اب منقسم آندھرا پردیش میں چرنجیوی کے بھائی پون کلیان ہیں جوفلموں سے سیاست میں آئے اور ان کا کیرئیر کامیاب بھی رہا ہے ۔ خود ٹاملناڈو میں اداکار کمل ہاسن بھی سیاست میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں اور وہ راجیہ سبھا کے رکن بن گئے ہیں۔ اسی طرح ٹاملناڈو میں اب مقبول اداکار وجئے نے بھی سیاسی پارٹی قائم کرلی ہے ۔ انہوں نے ٹی وی کے نام سے پارٹی بنائی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ انتخابات میں تنہا مقابلہ کریں گے اور کسی بھی جماعت سے ان کا اتحاد نہیں ہوگا ۔ وجئے عوام سے رجوع ہونے کا سلسلہ بھی شروع کرچکے ہیں اور ہفتے کو کرور میں ان کی ریلی تھی ۔ اس ریلی میں اچانک بھگدڑ شروع ہوگئی اور 40 قیمتی جانیں تلف ہوگئیں۔ ایک سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ٹاملناڈو کی ایم کے اسٹالن حکومت نے مہلوکین کے ورثاء کیلئے فی کس دس لاکھ روپئے ایکس گریشیا کا اعلان کردیا ۔ خود وجئے کی جانب سے بھی معاشی امداد کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ معاشی امداد یا معاوضہ انسانی جانوں کا بدل نہیں ہوسکتا ۔ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر اس طرح کی بھگدڑ کیلئے ذمہ دار کون ہیں جن میں اتنا بھاری جانی نقصان ہوا ہے ۔ خود ایک متوفی خاتون کی بہن نے معاشی امداد قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کا کہنا تھا کہ اسے پیسے نہیں اپنی بہن واپس چاہئے ۔ یہ خواہش کوئی پوری نہیں کرسکتا ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنوبی ہند کے لوگ فلمی ستاروں سے دیوانگی کی حد تک وابستگی رکھتے ہیں ۔ اسی کا فائدہ حاصل کرنے کیلئے فلمی ستارے سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ سیاست میں قسمت آزمائی کا ہر کسی کو حق حاصل ہے تاہم کسی کو اس طرح انسانی جانوں کی اتلاف کی وجہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس طرح کی ریلیوں میں بھگدڑ پہلی بار نہیں ہوئی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار کون ہیں۔ ہزاروں افراد کا مجمع جمع ہو رہا ہے تو اس کیلئے انتظامات بھی انتہائی موثر کئے جانے چاہئے تھے جو نہیں کئے گئے ۔ کہا جا رہا ہے کہ وجئے اس ریلی میں چھ گھنٹوں کی تاخیر سے پہونچے تھے ۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ سیاستدان عوام کو انتظار کی سولی پر لٹکانا اپنی حق سمجھتے ہیں۔ چھ گھنٹوں کی تاخیر کے نتیجہ میں وہاں عوام کا ہجوم بے تحاشہ بڑھ گیا ۔ عوام بے چین ہوگئے اور جب وجئے کی آمد ہوئی تو انہوں نے عوام کی جانب پانی کی بوتلیں اچھالیں اور یہیں سے صورتحال بے قابو ہونی شروع ہوگئی تھی ۔ ٹی وی کے نے ابھی انتخابی سفر شروع نہیں کیا ہے اور اس سے قبل ہی اسے عوام کی اموات پر تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ریلی کے معاملے میں بدانتظامی ہوئی ہے ۔ اس کا نتیجہ درجنوں افراد کی زندگیوں کے تلف ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ جن گھروں میں اموات ہوئی ہیں ان کیلئے کوئی بھی امداد مداوا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ان کے غموں کو ہلکا کرسکتی ہے ۔ چند پیسے یہ بوجھ کم نہیں کرسکتے ۔
ملک میں اس طرح کے واقعات وقفہ وقفہ سے پیش آتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے حالات کیلئے ایک ضابطہ اور اصول بنایا جانا چاہئے ۔ ایسے واقعات کی صورت میں ذمہ داری کس پر عائد ہو یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے ۔ ٹاملناڈو میں برسر اقتدار ڈی ایم کے کی جانب سے ٹی وی کے پر بد انتظامی کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں تو ٹی وی کے نے سازش کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ الزامات اور جوابی الزامات انسانی جانوں کے اتلاف کا حل نہیں ہوسکتے ۔ اس کیلئے کسی نہ کسی کو ذمہ داری قبول کرنے اور مستقبل میں ایسے حادثات رونما ہونے نہ پائیں اس کیلئے جامع اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے ۔