ریونت ریڈی کیلئے مشکلات و مسائل

   

Ferty9 Clinic

خدائی اہتمام خشک و تر ہے خداوندا خدائی درد سر ہے
مگر یہ بندگی استغفراللہ یہ درد سر نہیں درد جگر ہے
کئی ماہ کے ٹال مٹول اور تائید و مخالفت کے بعد بالآخر کانگریس ہائی کمان نے تلنگانہ پردیش کانگریس کے تعلق سے فیصلہ کردیا ہے اور رکن پارلیمنٹ ملکاجگری ریونت ریڈی ریاستی صدر مقرر کردیا ہے ۔ ویسے تو کئی سینئرقائدین پارٹی میںاس عہدہ کیلئے دعویدار تھے اور دوڑ دھوپ بھی کر رہے تھے تاہم ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد ہائی کمان نے ریونت ریڈی کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے ۔ جس طرح سے روایت رہی ہے کانگریس میں ریونت ریڈی کے تقرر کے فوری بعد مخالفتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ کچھ سینئر قائدین نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ کچھ نے پارٹی سے استعفی دیدیا ہے اور ایک اور سینئر لیڈر و رکن پارلیمنٹ کے وینکٹ ریڈی نے آئندہ کبھی گاندھی بھون کی سیڑھی نہ چڑھنے کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ ریونت ریڈی کے تقرر سے پہلے ہی سے کئی گوشوں سے ان کے نام کی مخالفت کی جا رہی تھی ۔ سینئر لیڈر ہنمنت راو اور دوسرے قائدین کی جانب سے ریونت ریڈی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ استدلال پیش کیا جا رہا تھا کہ وہ پارٹی میں نئے ہیں۔ وہ تلگودیشم سے آئے ہیں۔ ان کی بہ نسبت دوسرے کئی قائدین پارٹی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تاہم ریاست میں گذشتہ سات برسوں میں کانگریس پارٹی کا جو حال ہوا ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔تمام سینئر قائدین کی موجودگی اور صلاحیتوں کے دعووں کے باوجود کانگریس ایک بھی ضمنی انتخاب نہیں جیت پائی ہے ۔ ناگرجنا ساگر ضمنی انتخاب میں پارٹی کیلئے کچھ امید بنی تھی تاہم وہاں بھی سینئر لیڈر کے جانا ریڈی کو شکست کا ہی سامنا کرنا پڑا ۔ اب جبکہ ریاست میںکوئی بھی انتخابات نہیں ہیںصرف ایک حضور آباد کا ضمنی انتخاب ہوسکتا ہے پارٹی کو مستحکم کرنے کیلئے کافی وقت ہے ۔ کانگریس کے پاس ریاست میں اب بھی کیڈر ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو کیڈر ہے اسے مستحکم کیا جائے ۔ اس میں جوش و خروش پیدا کیا جائے ۔ عوام کے مسائل کو اجاگر کیا جائے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو عوام میں پیش کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کی جائے ۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب پارٹی میں اتحاد ہوگا اور سبھی قائدین متحد ہونگے ۔
اب جبکہ ہائی کمان نے ریونت ریڈی کو پردیش کانگریس کا صدر بنادیا ہے تو یہ ذمہ داری ان کیلئے آسان اور سہل نہیںہوگی ۔ ریاست میں کانگریس کی انتہائی کمزور حالت ہوگئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاستکا ہے کہ ریونت ریڈی کو گراونڈ زیرو سے شروعات کرنی ہوگی ۔ تمام قائدین کو ساتھ لے کر چلنا بھی ان کیلئے آسان نہیںہوگا ۔ ریاست میں کئی قائدین ایسے ہیں جو کانگریس کی گاڑی کو اپنی مرضی سے کھینچنا چاہتے ہیں تو کچھ قائدین اسے مخالف سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ کئی قائدین ایسے ہیں جو عوامی تائید سے محروم ہونے کے باوجود بلند بانگ دعوے کرنے اور میڈیا میں بنے رہنے کے ہنر سے واقف ہیں اور اسی کے سہارے اپنی سیاسی زندگی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح کی روش سے پارٹی کو دوبارہ عوامی تائید نہیں دلائی جاسکتی ۔ عوام میں پارٹی کو ایک بار پھر ٹی آر ایس کے متبادل کے طور پر ابھرنا ہے تو عوام کے درمیان رہنا ہوگا ۔ حکومت کے ناکامیوں کی کھل کر اور شدت سے مخالفت کرنی ہوگی ۔ احتجاج کے راستے کو اختیار کرنا ہوگا ۔ حکومت کی دھمکیوںاور مقدمات سے خوفزدہ ہونے والے قائدین ریاست میں کانگریس پارٹی میں نئی جان نہیں ڈال سکتے ۔ مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی مستقبل کو مستحکم بنانے والے جارحانہ تیور اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے قائدین کی ضرورت ہے اور پارٹی کے دوسرے تمام سینئر قائدین کو بھی پارٹی کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پارٹی کے استحکام کیلئے کام کرنا چاہئے ۔
پردیش کانگریس کی صدارت پر ریونت ریڈی کے تقرر کی مخالفت ایک طرح سے کانگریس کی روایات کا حصہ ہے ۔ پارٹی میں کئی قائدین ایک دوسرے کے کٹر مخالف رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں بھی ان کا وطیرہ رہی ہیں۔ تاہم ریونت ریڈی کو جہاں پارٹی قائدین کو متحد کرنے اور اختلافات کو فراموش کرنے کی ذمہ داری ہے وہیں ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے پاس آئندہ انتخابات کی تیاریوں کیلئے کافی وقت ہے ۔ وہ پارٹی کو نچلی سطح سے مستحکم کرنے پر توجہ کرسکتے ہیں۔ صرف تشہیری قیادت یا سیاست سے کانگریس کے سیاسی مستقبل کو روشن نہیں بنایا جاسکتا اس کیلئے جدوجہد اور بے تکان مشقت کی ضرورت ہوگی ۔