زانیوں اور قاتلوں کی رہائی واہ مودی جی !

   

برندا کرت
پندرہ اگست کو ہندوستان کی آزادی کے 75 سالہ جشن پر مودی حکومت نے ’’ہر گھر ترنگا‘‘ مہم چلائی اور پھر ساری قوم نے دہلی کے تاریخی لال قلعہ سے وزیراعظم نریندر مودی کا ولولہ انگیز خطاب بھی سنا جس میں انہوں نے خواتین کی حرمت و وقار کو برقرار رکھنے کی ضرورت ’’ناری شکتی‘‘ سے متعلق اپنے اندرونی احساسات و جذبات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے ان احساسات و جذبات کو اپنے ہم وطنوں سے نہیں تو کس سے شیئر کروں گا۔ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی خواتین کے احترام و وقار کی بڑی بڑی باتیں کررہے تھے اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ وہ خواتین کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ان کی حرمت کی پامالی کو وہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتے۔ ان کے خطاب میں خواتین کے بارے میں جو کچھ کہا گیا تھا، اس کا لب لباب یہی تھا کہ ملک میں خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کئے جانے کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ بہت پریشان ہو اُٹھتے ہیں، ان سے خواتین کی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ 15 اگست کو وزیراعظم لال قلعہ کی فصیل سے بڑی بڑی باتیں کررہے تھے اور اسی دن بلقیس بانو اجتماعی عصمت ریزی و قتل کیس میں سزائے عمر قید کاٹ رہے 11 قیدیوں کو باالفاظ دیگر انتہائی بہیمانہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو رہا کیا گیا اور وہ گجرات کی ایک جیل سے باہر آگئے اور یہ سب کچھ حکومت کی سرپرستی سے ہوا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ’’ناری شکتی‘‘ کے فروغ اور ناموس خواتین اور ان کے وقار کے تحفظ کا یہی طریقہ ہے؟ 11 مجرمین کی رہائی کا حکم جاری کرتے ہوئے جس طرح ناانصافی کی گئی، اسے سمجھنے کیلئے ہمیں 20 سال واپس جانا چاہئے۔ وہ 3 مارچ 2002ء کی بات ہے۔ گجرات کے ضلع دوہاڈ کے قریب رندھیک پور گاؤں میں 17 مرد و خواتین کا ایک گروپ اپنی جانیں بچانے ٹرک میں فرار ہورہا تھا اور ایک جیپ میں کچھ مرد ان کا تعاقب کررہے تھے۔ اس خاتون کے ساتھ اس کی بہن اور چچازاد بہن بھی تھی جن میں سے ایک نے چند دن قبل ہی ایک بچے کو جنم دیا تھا یعنی ایک زچہ بھی تھی لیکن ان درندوں نے اسے بھی نہیں بخشا۔ دونوں خواتین کی بھی عصمت ریزی کی۔ نومولود بچے کو قتل کردیا گیا۔ 17 لوگوں میں سے 14 کو ذبح کردیا گیا جن میں 4 بچے اور 4 خواتین بھی شامل تھیں۔ قاتلوں کے اس ٹولے نے اس خاتون کو بھی مرنے کیلئے چھوڑ دیا یا شاید وہ سمجھ بیٹھے کہ دوسروں کی طرح اس نے بھی دم توڑ دیا ہے، لیکن وہ زندہ بچ گئی۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے شوہر سے دوبارہ مل گئی جو اس دن اتفاق سے کہیں گیا ہوا تھا۔ پہلے تو وہ اپنے اور اپنے ارکان خاندان کے ساتھ پیش آئے دردناک واقعہ کے بارے میں کچھ بات نہ کرسکی لیکن آخر اس نے خود میں یہ حوصلہ پیدا کیا کہ وہ اپنے شوہر اپنے دوست احباب اور معاشرہ کو اپنے اور دوسری خواتین اور مردوں کے ساتھ پیش آئے ہولناک واقعہ سے ضرور واقف کروائے گی اور یہ بتائے گی کہ اسے اور دوسری عورتوں کو کس طرح درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ کیسے ان قاتلوں نے چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں کو اس کی نظروں کے سامنے قتل کردیا۔ بہرحال اس نے خود کو غیرمعمولی حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک متاثرہ خاتون سے ایک بچ جانے والی خاتون میں تبدیل کرلیا اور پھر ایک بچ جانے والی خاتون سے ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والی شخصیت میں تبدیل ہوگئی۔ وہ ان خاطیوں کے بارے میں اچھی طرح جانتی تھی جنہوں نے اس کی زندگی تباہ کردی تھی۔ اس کی شیرخوار بیٹی کو اس کی نظروں کے سامنے پٹخ پٹخ کر مار دیا تھا، کیا کوئی ماں اپنی نظروں کے سامنے اپنی لخت جگر کو قتل ہوتے دیکھتے ہوئے قاتلوں کے سفاک چہروں کو بھول سکتی ہے؟ ہرگز نہیں اس نے بھی قاتلوں اور زانیوں کے بدنما چہروں کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیا اور جب اس نے انصاف کیلئے اپنی لڑائی کا آغاز کیا تب اس نے پایا کہ حکومت ان افراد کی تائید و حمایت کررہی ہے جنہوں نے اس کی عزت تار تار کردی تھی جنہوں نے اس کے ارکان خاندان کو بڑے ہی بیدردانہ انداز میں موت کی نیند سلا دیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ایف آئی آر میں بھی بڑے پیمانے پر ہیراپھیری کی گئی۔ میڈیکل رپورٹس اور نعشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس سے بھی زخموں سے متعلق انتہائی اہم تفصیلات حذف کردی گئیں۔ شواہد کو مٹا دیا گیا کیونکہ پولیس نے خود ان شہداء کی تدفین عمل میں لائی۔ ظلم و ستم کی حد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی 3 سالہ بیٹی کی نعش غائب کردی گئی ۔ استغاثہ نے ملزمین کی طرفداری کی اس کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی تحت کی عدالت نے دروغ گوئی و جھوٹ کو برقرار رکھا اور مقدمہ بند کردیا گیا لیکن اس نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ ہوئے ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھا۔ سال 2008ء میں ایک خصوصی عدالت نے 11 ملزمین (جس میں سے ایک دوران مقدمہ ہی اس دنیا سے چل بسا) کو سزائے عمر قید سنائی لیکن پولیس اور ان ڈاکٹروں کو بری کردیا جن پر رپورٹس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام تھا۔ پھر مئی 2017ء میں سی بی آئی کی ایک درخواست پر ممبئی ہائیکورٹ نے سزائے عمر قید کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ پولیس اور ڈاکٹروں کو بھی خاطی پایا جس پر اس کے ملے جلے تاثرات تھے۔ اُسی ہفتہ اجتماعی عصمت ریزی کے ایک کیس ’’نربھیا ریپ کیس‘‘ میں ایک عدالت نے زانیوں کو سزائے موت سنائی، تب یہ سوال پیدا ہوا کہ نربھیا کے کیس میں خاطیوں کو سزائے موت لیکن بلقیس کیس میں خاطیوں کو صرف عمر قید کیوں؟ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟سال 2019ء میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں حکومت گجرات کو حکم دیا کہ وہ بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپئے معاوضہ، سرکاری ملازمت اور ایک مکان فراہم کرے۔ عدالتی احکامات کے تحت حکومت گجرات نے بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپئے معاوضہ تو ادا کیا لیکن ملازمت دی اور نہ ہی گھر فراہم کیا۔ اس کے باوجود وہ اپنی زندگی کی ازسرنو شروعات کی کوشش کررہی ہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب 15 اگست 2022ء کو بلقیس بانو کو پتہ چلا کہ مجرمین کو آزاد کردیا گیا ہے، وہ جیل سے باہر آگئے ہیں جس کے ساتھ ہی وہ 20 سال قبل کے بھیانک دنوں میں چلی گئی جہاں موت کا راج تھا۔ فضاء میں ان خواتین بشمول خود بلقیس بانو کی چیخیں بلند ہورہی تھیں، جنہیں درندے اجتماعی عصمت ریزی کا شکار بنارہے تھے۔ ان کے جسموں کو نوچ رہے تھے۔
خاطیوں کی رہائی کے ساتھ حکومت گجرات کے بنائے گئے طریقہ کار پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا حکومت گجرات کا اقدام جائز ہے یا ناجائز۔ سپریم کورٹ نے جاریہ سال مئی میں ایک ملزم کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے خاطیوں کی سزا معاف کرنے سے متعلق گجرات حکومت کے قواعد کو برقرار رکھا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسے قیدیوں کو معافی سے متعلق 1992ء کی پالیسی کا جائزہ لینا چاہئے۔ اس پالیسی کا پہلے ہی اطلاق عمل میں آچکا تھا۔ حکومت گجرات نے تو یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ ان قیدیوں کو معافی کی منظوری قانونی طور پر جائز ہے۔ حکومت گجرات کا یہ کہنا بالکل بکواس ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جیل میں چودہ پندرہ سال رہنے کے بعد معافی خود بخود حاصل ہونے والا حق نہیں ہے اور حکومت گجرات نے جو کچھ کیا، وہ کسی بھی طرح قانونی طور پر جائز نہیں ہے اور یہ کئی مقدمات میں سپریم کورٹ نے واضح بھی کردیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اخلاقی اعتبار سے بھی یہ بالکل غلط ہے۔ خود حکومت گجرات نے معافی سے متعلق اپنے نظرثانی شدہ رہنمایانہ خطوط میں جو 2014ء کو جاری کئے گئے تھے، بطور خاص (شق (c)IV منسلکہ 1) میں ریپ، گیانگ ریپ اور قتل کے مقدمات میں خاطی قرار دیئے گئے خاطیوں کو شامل نہیں کیا۔بلقیس بانو کیس میں عدالت نے ملزمین کی جانب سے ارتکاب کئے گئے جرائم کو انتہائی بہیمانہ وحشت ناک جرائم قرار دیا تھا۔ ایسے میں انہیں عام معافی کے تحت رہا کیا جانا غیرقانونی ہے۔ معافی منظور کرنے والی کمیٹی میں بی جے پی کے دو ارکان اسمبلی بھی شامل تھے۔ ایسے میں کیا ان سے انصاف کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ بہرحال مودی اور امیت شاہ کو اس غیرقانونی رہائی کا نوٹ لینا چاہئے۔