شیخ طریقت حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددیؒ کی
خانقاہ میں (۵۰) دن کا قیام ، خانقاہی نظامِ تربیت اور درگاہی نظم و نسق
۲۰۲۳ ء کے اوائل میں مجھے اپنے پیر و مرشد حضرت ابوالخیرات سید انواراللہ شاہ نقشبندی مجددی و قادری ؒ نبیرۂ حضرت محدث دکنؒ کی طرف سے ایک غیبی اشارہ ہوا کہ ’’کامران سے بات کرو اور پاکستان جاؤ ‘‘ یہ خواب میرے لئے ایک پہیلی سے کم نہ تھا جس کو فہم و فراست سے حل کرنا میری استطاعت سے باہر تھا ۔ اسی اثناء میں ۳۰؍ اپریل ۲۰۲۳ ء کو میں نے اپنی محبوب مسجد اور پسندیدہ کمیونٹی MCQC سے اپنے خدمات ختم کرکے جنرل سکریٹری برادر کامران کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا اور تھوڑی دیر بعد برادر کامران کا میسج آیا کہ میں نے آپ کا استعفیٰ بورڈ کو نہیں بھیجا ۔اگر استعفیٰ واپس لینا چاہتے ہیں تو اختیار ہے ۔ اُن کے اس پیغام سے مجھے اپنا خواب یاد آیا جس میں مجھے برادر کامران سے بات کرنے کا حکم تھا ۔ چونکہ exact چار سال کے اختتام پر میرا استعفیٰ دینا بالکل حتمی اور قطعی فیصلہ تھا جس میں میرے لئے تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو میں نے اُن کو بلا تردد میسج کیاکہ آپ میرے استعفیٰ کو Forwardکردیں ، اس کے جواب میں انھوں نے مجھے Congratulation لکھا ۔ جب استعفیٰ بورڈ کو گیا تو ہلچل ہوئی اور جو میرے اور بورڈ کے درمیان Mediator تھے اُن کا اصرارہوا کہ میں Continue کروں اور وہ بورڈ سے نیا معاہدہ بنالیں گے ۔ جب اصرار بڑھتا گیا تو میں برادر کامران کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ یہ میری شخصی ملاقات ہے ، استعفیٰ کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس سے آپ واقف ہیں ، میں آپ کی شخصی رائے جاننا چاہتا ہوں تو اُنھوں نے جواب دیا ہم کو آپ کی ضرورت ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ معاشی اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہوں تو میں صدفیصد آپ کے فیصلے کے حق میں ہوں ۔ اُن کی اس گفتگو سے میرے پیر و مرشد کے اشارہ منامی ’’کامران سے بات کرو اور پاکستان جاؤ ‘‘ کا نصف حصہ تکمیل کو پہنچا ۔
میرا خیال تھا کہ ترکی نقشبندی کا سلسلہ کا مرکز ہے اور مجھے نقشبندی نظام تربیت کو سمجھنے کی جستجو تھی اس لئے میں آٹھ دن کیلئے ترکی گیا اور حضرت شیخ ناظم حقانیؒ کی خانقاہ کو گیا جہاں آپ کے صاحبزادے شیخ محمد عادل ربانی سے سلوک کے مراحل پر تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ اسی طرح ترکی کی مختلف خانقاہوں میںمختلف بزرگوں سے ملاقاتیں رہیں تاہم جس نظامِ تربیت کی جستجو تھی مجھے نظر نہیں آیا ۔ بالآخر میں مدینہ منورہ حاضرا ہوا اور ایک مہینہ اس مقدس سرزمین کی نورانی فضاؤں میں گزارا ۔ حسن اتفاق سے ایک دن مولانا حسن بن محمد الحمومی زیدمجدہ نے اپنے گھر قصیدہ بردہ کی محفل میں شرکت کی دعوت دی۔ اس مبارک محفل میں حضرت عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ ؒ کے خانوادہ سے وابستہ محترم عبدالرؤف قادری صاحب نے کہاکہ مسجد نبوی شریف میں پاکستان کے سیفی سلسلہ کے لوگ ہیں جنھوں نے مجھ سے کہاکہ آپ پاکستان آئیں تو آٹھ دن میں آپ کے لطائف جاری ہوجائیں گے اور انھوں نے مرکز تجلیات داتا گنج بخش حضرت علی ہجویریؒ کے آستانہ پر حاضری کی اپنی دیرینہ تمنا کا اظہار کیا ۔اُن کا یہ کہنا مجھے میرے پیر و مرشد کے اشارہ منامی کے دوسرے اہم جز ( پاکستان جاؤ ) کی تشریح نظر آئی ۔ بناء بریں مدینہ منورہ میں پڑوسی ملک کے زائرین سے سلسلہ نقشبندی کی معلومات حاصل کرتا گیا اور یہ طے کرلیا کہ سیفی سلسلہ کے سینئر خلیفہ کی خانقاہ کو پہلے جاؤں گا۔ جب حیدرآباد واپسی ہوئی اور پڑوسی ملک کے سفر سے ایک ہفتہ قبل میرے شاگرد مولانا شبیر فیضی کی خواہش و اصرار پر میری ملاقات حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندیؒ کے ایک معزز خلیفہ سے ہوئی، انھوں نے بعد رابطہ اطلاع دی کہ حضرت کا سفر کا ارادہ ہے پہلے حضرت کی خانقاہ تشریف لے جائیں تو مناسب ہے ۔ چنانچہ ۱۵؍ فبروری ۲۰۲۴ ء کو میں معھد الفقیر موقوعہ جھنگ پاکستان پہنچا کہ صدر دروازہ پر میری ملاقات حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی نوراﷲ مرقدہ سے ہوگئی جوکہ ایک دعوت سے واپس ہورہے تھے ۔ سرسری تعارف ہوا اور میرے رہنے کے انتظامات کردیئے گئے ۔ دوسرے دن جمعہ سے قبل حضرت جی سے ملاقات ہوئی ، میرا نام سنکر فرمایا کہ آپ نسباً صدیقی ہیں ؟ جب میں نے اثبات میں جواب دیا تو بہت خوش ہوئے اور خادم خاص سے فرمایا کہ مولوی صاحب کوصبح و شام میرے پاس لے آیا کریں ۔ سنا گیا کہ حضرت جی قبلہؒ خواب میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی زیارت کے بعد نقشبندی سلسلہ سے وابستہ ہوئے اور خوشا قسمت کہ آپ کا وصال بھی حضرت صدیق اکبرؓ کی وصال مبارک کی تاریخ ۲۲ ؍ جمادی الثانی کو ہوا ۔ حضرت جی قبلہ ؒ فطری طورپر ذہن رسا ، فریس ، بلا کے محنتی ، صائب الرائے ، مردم شناس ، فراست ایمانی اور روحانی بصیرت سے مالا مال تھے ۔ شیخ کامل کی صحبت بافیض ، ذوقِ مطالعہ ، مجاہدات کی رغبت ، مراقبات کی کثرت ، تقویٰ شعاری ، سنت رسول سے بے پناہ محبت نیز اخلاص و للھیت نے آپ کو منبع فیض بنادیا تھا ۔
چنانچہ حضرت نے میری رغبت و استعداد کو جاننے کیلئے سلوک سے متعلق سوالات کئے تو میں نے سلوک مجددی اور حضرت شہاب الدین سہروردی کے فلسفہ نورو ظلمات میں میری رغبت کا اظہار کیا ۔ حضرت نے فرمایاکہ آپ تمام فلسفہ کو چھوڑدیں صرف اور صرف حضرت مجدد علیہ الرحمہ کے فلسفۂ سلوک ، عالم خلق اور عالم امر سے متعلق انسان میں موجود ساتوں لطائف پر توجہہ مرکوز کریں۔ نیز حضرت نے فرمایا تصوف حال ہے قال نہیں اس لئے ہمارے اکابر کتابیں پڑھنے سے منع کرتے تھے ۔ صرف ذکر و مراقبہ کی کثرت پر توجہہ مرکوز کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر فرمایا میری خواہش ہے کہ آپ کے پاس سالکین کی جماعت کی جماعت آیاکریں۔ اصل میں سلسلہ کی اشاعت و ترویج ، خانقاہی نظام تربیت ، اصلاح باطن ، تربیت نفس روحانی ترقی کا تسلسل مقصود و مطلوب ہے اور یہی خانقاہی نظام حضرت قبلہؒ کی خانقاہ میں آج کے دور میں بھی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے ۔ اسی بناء پر وہاں کے حضرت شیخ الحدیث قبلہ سے میں نے کہاتھا کہ جس خانقاہی نظام کی مجھے تلاش تھی جس کے لئے میں نے مختلف ممالک کا سفر کیا تھا وہ مجھے اس خانقاہ میں نظر آیا جس سے مجھے اطمینان قلب حاصل ہوا ۔ معھد الفقیر کی وسیع و عریض عالیشان مسجد میں شب برأت کے پروگرام کے بعد اچانک خاکسار کی خلافت کا ذکر آیا جس کی مجھے قطعاً کوئی اطلاع نہیں تھی ، دستاربندی کے بعد تنہائی میں حضرت جی قبلہ نے القاء نسبت کا مراقبہ کیا اور اپنے سینے کے قریب میرے سر کو رکھ کر اتنی بڑی سانس چھوڑی کہ چار نوجوان بھی اس قدر بڑی سانس لینے سے قاصر ہوں گے ۔ پھر فرمایا یہ وہ عمل تھا جو سرکارِ دوعالم ﷺ نے حضرت صدیق اکبرؓ کے ساتھ کیا تھا اور فرمایا تھا اے ابوبکر ! جو میرے سینے میں تھا میں نے تمہارے سینے میں منتقل کردیا ‘‘ ۔ پھر فرمایا یہ عمل صرف اور صرف ہمارے سلسلہ میں ہے کسی دوسرے سلسلہ نقشبندیہ میں بھی اس طریقہ سے القاء نسبت کاکوئی طریقہ نہیں ۔ بعض حضرات نے خاکسار کی خلافت پر اعتراض کیا تھا اور اس کو دیوبندیت کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی تھی ۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ جو القاء نسبت کا طریقہ ہے کیا مولانا قاسم نانوتوی نے قائم کیا تھا یا مولانا رشید احمد گنگوہی نے یا پھر مولانا اشرف علی تھانوی کا ایجاد کردہ ہے ۔ کس طرح نقشبندی سلسلہ کی خلافت کو دیوبندیت اور بریلویت سے جوڑا جاسکتا ہے ؟
الغرض ۲۲ جمادی الثانی ۱۴۴۷ ہجری مطابق ۱۴؍ ڈسمبر ۲۰۲۵ ء کو حضرت قبلہ کا وصال ایک عظیم نقصان ہے ۔ یہ وہ پاکیزہ ہستی ہے جنھوں نے اپنی زندگی میں اپنے مشن کو مکمل کیا ، وہ خاندانی مشائخ نہیں تھے بلکہ انھوں نے اپنی مسجد ، مدرسہ اور خانقاہ کی داغ بیل ڈالی اور نہ صرف اپنے صاحبزادگان کی تربیت فرمائی بلکہ اپنے پوتروں کو تک تیار کیا اور آپ کے سینکڑوں خلفاء ہر اعتبار سے تیار ہیں اور آپ کے مشن کو آگے بڑھارہے ہیں ۔ اسقدر تبدیلی اور ایسا انقلاب ان آنکھوں نے آج تک نہیں دیکھا ۔ اﷲ تعالیٰ حضرت مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے ۔ پسماندگان و وابستگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عشق الٰہی کے چراغ روشن کرنے اور اتباع سنت سے آراستہ جماعت کی جماعت تیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ طہٰ و یٰسین
