زرعی قوانین کی منسوخی کے بعد بی جے پی کا پہلا الیکشن

   

وویک گپتا
وزیراعظم نریندر مودی نے کسانوں سے معذرت خواہی کی اور اپنی حکومت کی جانب سے منظور کئے گئے تین متنازعہ زرعی بلس کو واپس لے لیا۔ اس معذرت خواہی اور تین سیاہ قوانین کو واپس لینے کے تقریباً ایک ماہ بعد بی جے پی کو چندی گڑھ کے بلدی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ چندی گڑھ وہ علاقہ ہے جہاں بی جے پی 2016ء سے دوتہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں تھی۔ انتخابات کے دوران یہ پیش قیاسی کی جارہی تھی کہ کانگریس ، بی جے پی مخالف ووٹ حاصل کرلے گی، لیکن عام آدمی پارٹی نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور چندی گڑھ میونسپل کارپوریشن کی جملہ 35 نشستوں میں سے 14 پر کامیابی حاصل کی۔ حکمراں بی جے پی صرف 12 نشستوں تک محدود ہوگئی جبکہ کانگریس 8 سے زائد سیٹیں نہیں جیت سکی۔ ایک سیٹ پر شرومنی اکالی دل کا امیدوار کامیاب ہوا۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے زرعی قوانین واپس لینے کے بعد شمالی ہند میں یہ پہلے انتخابات تھے۔ امید ہے کہ یہ انتخابات اترپردیش اور پنجاب کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے نتائج میں اہم کردار ادا کریں گے۔ عام آدمی پارٹی چندی گڑھ یونٹ کے کنوینر پریم گارگ نے ’’دی وائر‘‘ کو بتایا کہ چندی گڑھ بلدی انتخابات میں بی جے پی کی شکست زرعی قوانین کی شکل میں مودی حکومت نے جو بھیانک غلطی کی تھی اور مودی حکومت جس طرح مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی، اس پر ایک واضح ریفرنڈم ہے۔ چندی گڑھ تو صرف ایک ٹریلر ہے، پنجاب ہمارا اگلا نشانہ ہے جہاں عوام روایتی پارٹیوں کی بجائے ہمارے حق میں ووٹ ڈالیں گے اور تبدیلی کا مشاہدہ کریں گے۔
چندی گڑھ بلدی انتخابات میں میئر کی میعاد ایک سالہ ہوتی ہے اور ہر سال بلدی کارپوریشن کے منتخبہ ارکان اپنے میں سے کسی ایک کو شہر کا نیا میئر منتخب کرتے ہیں۔ بی جے پی 2016ء سے چندی گڑھ میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرتی آرہی ہے۔ ماضی میں جملہ 26 نشستیں ہوا کرتی تھیں جس میں سے بی جے پی کے امیدوار 21 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے لیکن اس مرتبہ نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں 35 کردیا گیا۔ چندی گڑھ ایک مرکزی زیرانتظام علاقہ ہے جو بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے راست کنٹرول میں ہے۔ اداکارہ کرن کھیر 2014ء سے بی جے پی ایم پی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں اس شہر کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔ اب یہ سمجھا جارہا ہے کہ مقامی بی جے پی قیادت میں تبدیلی کی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔ بی جے پی نے کس قدر خراب مظاہرہ کیا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میئر روی کانت شرما کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حد تو یہ ہے کہ دو سابق میئر کو بھی شکست ہوئی جن میں داویش موڈگل بھی شامل ہیں۔ چندی گڑھ بی جے پی کے صدر ارون سود کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی عہدۂ میئر کیلئے دعویٰ نہیں کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں توقع تھی کہ بی جے پی چندی گڑھ میں ماضی سے کہیں زیادہ بہتر مظاہرہ کرے گی۔ اب انتخابی نتائج آچکے ہیں اور اس بات پر غور کرنے کیلئے کہ آخر پارٹی نے حسب توقع مظاہرہ کیوں نہیں کیا، ایک اجلاس طلب کیا جائے گا۔
بی جے پی چندی گڑھ بلدی کارپوریشن پر قبضہ برقرار رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور اس نے کئی مرکزی وزراء بشمول پیوش گوئل ، کئی بی جے پی زیرقیادت ریاستوں کے چیف منسٹر کی خدمات حاصل کیں۔ چیف منسٹر ہماچل پردیش جئے رام ٹھاکر اور چیف منسٹر ہریانہ منوہر لال کھٹر چندی گڑھ میں قیام کئے ہوئے تھے۔ عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم زیادہ تر مقامی قائدین نے چلائی ۔ اس نے متوسط طبقہ کی آبادی جو کالونیوں میں رہتی ہے اور مضافاتی علاقوں کو اپنا ہدف بنایا جس کا نتیجہ اس کے امیدواروں کی کامیابی میں نکلا۔کجریوال کی پارٹی کو کانگریس کے کئی اہم قائدین کے انحراف سے بھی مدد ملی۔ 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں چندی گڑھ جیسی نشست پر عام آدمی پارٹی کے امیدوار نے صرف 3.8% ووٹ حاصل کئے تھے لیکن بلدی انتخابات میں اس کے امیدواروں نے 27% ووٹ حاصل کئے۔ عآپ کے سینئر لیڈر راگھو چڈھا نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ چندی گڑھ میں دراصل حکمرانی کے کجریوال ماڈل کی کامیابی ہوئی۔ یہاں عوام برسوں سے تبدیلی چاہ رہے تھے۔ دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے اس مقابلے میں داخلے کے نتیجہ میں بی جے پی کے بجائے کانگریس کے ووٹ تقسیم ہوگئے۔ اس طرح بی جے پی کو جو کچھ بھی کامیابی ملی ، وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی سب سے بڑی پارٹی نہ بن سکی۔ کانگریس کیلئے بی جے پی کا متبادل بننے کا یہ بہترین موقع تھا لیکن ہمیشہ کی طرح کانگریسی قائدین کے داخلی انتشار نے انہیں شکست سے دوچار کردیا۔ اس سلسلے میں سابق مرکزی وزیر ریلوے اور کانگریس کمیٹی کے عبوری خازن پون بنسل کو جواب دینا چاہئے جنہیں پارٹی نے چندی گڑھ کا انچارج بنایا تھا۔ پون بنسل 2014ء اور پھر 2019ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی کرن کھیر سے شکست کھائے تھے۔ کانگریس کا مظاہرہ اگرچہ برا نہیں رہا لیکن اس کے قائدین اچھی طرح مہم چلاتے تو وہ بڑی پارٹی بن کر اُبھرتی۔