سانحہ کربلا اور اہل بیت کے قتل پر وقوع پذیرچند واقعات

   

سانحہ کربلا کے وقت اور اس کے فورا بعد بہت سے ایسے واقعات رو نما ہوئے جن کا ذکر کتب تاریخ اور کتب روایات میں ملتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی مشہورِ عالم کتاب سرالشہادتین کی شرح تحریرالشہادتین سے کچھ ایسی روایات و واقعات نقل ہے جس سے آپ کو اندازہ ہو سکے گا کہ اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور مستند روایات میں ان کا ذکر موجود ہے۔
کئی دن تک آسمان روتارہا
اور بیہقی نے علی بن مسھر سے روایت کی کہ اس نے کہا کہ مجھے میری دادی نے بتایاکہ جب امام حسین شہید ہوئے میں نوجوان لڑکی تھی ۔امام عالی مقام کی شہادت کے سانحہ پرکئی دن تک آسمان روتا رہا۔ جاننا چاہیے کہ گریۂ آسمان کے متعلق سلف سے متعدد روایات منقول ہیں۔ چناں چہ ابن جوزیؒ نے ابن سیرینؒ سے روایت کی ہے کہ قتلِ حسینؑ کے دن سے تین روز تک دنیا تاریک رہی۔اس کے بعد آسمان میں سرخی ظاہر ہوئی۔ثعلبیؒ سے منقول ہے کہ قتلِ حسینؑ پر آسمان رویا اور آسمان کا رونا اس کی سرخی ہے۔منقول ہے کہ آسمان چھ مہینے تک سرخ رہا۔ابن سیرینؒ کہتے ہیں کہ آسمان کے کنارے پر جو سرخیِ شفق ہے یہ قتلِ حسینؑ کے واقعہ کے بعد ظاہر ہوئی۔ اس سے قبل آسمان پر اس سرخی کا وجود نہ تھا۔ابن سعدؒ سے بھی روایت ہے کہ شفق کی سرخی سید الشہداء کی شہادت سے قبل نظر نہ آتی تھی۔
تین دن تک اندھیرا چھایا رہا
بیہقی نے ام حبان سے روایت کی انہوں نے کہا کہ جس دن حضرت حسینؓ شہید ہوئےاس کے بعد تین دن تک اندھیرا چھایا رہا، جس نے منہ پر زعفران ملا اس کا منہ جل گیا اور بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا اس کے نیچے سے تازہ سرخ خون برآمد ہوا۔
اونٹوں کا گوشت اندرائن کے پھل جیسا کڑوا
بیہقی نے جمیل بن مرہ سے روایت بیان کی ہے: یزید ی لشکر امام عالی مقام کی شہادت کے بعد آپ کے لشکر کے اونٹ پکڑ کر لے گئے اور انہیں ذبح کر کے پکایا۔ان کا گوشت اندرائن کے پھل جیسا کڑوا تھا۔کسی کو اسے کھانے کی ہمت نہ ہوئی۔
صواعق محرقہ میں منقول ہے کہ ایک قافلہ جو یمن سے عراق کی جانب ورس نامی گھاس لے کر جا رہا تھاعراق کے راستے میں لشکر یزید کے ساتھ ملاتو قافلے کے اونٹوں پر لدا ہوا تمام کا تمام ورس جل کر خاکستر ہوگیا۔بعضوں کا کہنا ہے کہ وہ ورس جو قاتلانِ حسینؑ کے لشکر میں تھا جل کر خاک ہو گیااورجن اونٹوں کو ذبح کیا گیا ان کے گوشت میں سے آگ بھڑک اٹھی۔اور اسی طرح کے دوسرے عبرت انگیز واقعات رونما ہوئے۔
آسمان سےخون برسا
بیہقی اور ابو نعیم نے بصرہ ازدیہ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت حسینؓ شہید ہوئے توآسمان سےخون برسا اور صبح کے وقت ہمارے مٹکے ، گھڑے اور تمام برتن خون سے لبالب بھرے ہوئے تھے ۔بیت المقدس میں ہر پتھر کے نیچے سے تازہ سرخ خون نکلا ۔
آسمان کی سرخی غضب خداوندی کی علامت ہے
ابن جوزیؒ کہتے ہیں کہ آسمان کے سرخ ہوجانے میں یہ حکمت ہے کہ جب غصے کی وجہ سے خون جوش میں آتا ہے تو چہرے کی رنگت سرخ ہو جاتی ہے لیکن ذات باری تعالیٰ جو جسم اور دیگر لوازم سے منزہ ہے،نے اپنے غضب کے اظہار کا ذریعہ کنارۂ آسمان کی سرخی کو بنایاتاکہ شفق کی یہ سرخی قاتلانِ حسین کی انتہائے معصیت اور غضب الٰہی کی شدت پر دلیل بن جائے۔اور بعض کا کہنا ہے کہ قتلِ حسینؑ کے بعد سات روز تک آسمان نے گریہ کیااور آسمان کا یہ رونا اس درجہ تک پہنچ گیا تھا کہ آسمان کی سرخی کے سبب تمام درو دیوار اور عمارتیں بھی زردو سرخ ہو گئیںاور آسمان سے اتنے شہاب برسے کہ ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے ۔اسی طرح قتلِ حسینؑ کے دن آسمان سے خون برساجس کے نشانات ایک عرصے تک زمین پر باقی رہے۔اور جو کپڑا یا لباس اس خون سے رنگین ہوا اس کی سرخی کپڑے کے بوسیدہ اور پارہ پارہ ہونے تک زائل نہ ہوئی۔بعض روایات میں آیا ہے کہ قتل حسینؑ کے روز آسمان سے ایسا خون برسا کہ خراسان،شام اور کوفہ کے گلی کوچوں میں آب رواں کی صورت جاری ہو گیا۔منقول ہے کہ جب امام عالی مقام کے سر مبارک کو دارالامارت کوفہ میں لایا گیا اور وہاں رکھا گیا تو دارالامارت کی دیواروںسے خون جاری ہوگیا۔بیت المقدس کے پتھروں کے نیچے سے تازہ اور سرخ خون کا برآمد ہونا اور زعفران کا جلنا رسالہ سرالشہادتین کے متن میں زہری اور ام حبان کی روایات میں مذکور ہے۔
آفتاب کو گرہن لگا
روایت ہے کہ شہادت امام عالی مقام کے روز آفتاب کو ایسا گرہن لگا کہ دوپہر کے وقت ستارے ظاہر ہو گئے۔اور لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا کہ قیامت قائم ہو گئی اور علامات قیامت ظاہر ہونے لگیں۔