ساورکر پر راہول گاندھی کے ریمارکس

   

طوفان کتنے تہہ میں سمندر کے ہیں نہاں
خاموش ساحلوں پہ نہیں ملتا کچھ نشاں

ملک میں یہ ماحول پیدا ہوگیا ہے کہ جب کبھی کوئی اہم مسائل پر جدوجہد کا آغاز کرتا ہے اور عوامی مسائل کو اٹھاتے ہوئے حکومت کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے یا حکومت سے جواب طلب کیا جاتا ہے تو کئی گوشوں کی جانب سے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوششیں تیز ہوجاتی ہیں۔ جب کبھی حکومت سے کوئی سوال کرتا ہے تو جواب دینے کی بجائے اپوزیشن کو کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی روایت عام ہوتی جا رہی ہے ۔ اسی طرح کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی جانب سے ملک میں ہندو ۔ مسلم نفرتوں کو ختم کرنے کیلئے جو بھارت جوڑو یاترا شروع کی گئی ہے اس کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ راہول گاندھی نے ٹاملناڈو سے یاترا کا آغاز کیا ۔ یہ یاترا کیرالا ‘ کرناٹک اور تلنگانہ سے ہوتی ہوئی مہاراشٹرا میں پہونچ چکی ہے ۔ ان تمام ریاستوں میں یاترا کو عوام کا زبردست رد عمل حاصل ہوا ہے ۔ عوام کی خاطر خواہ تعداد اس یاترا کا حصہ بنتی جارہی ہے ۔ کئی عوامی شخصیتیں اس یاترا میںشامل ہو رہی ہیں۔ فلمی ستارے بھی اس سے دور نہیںہیں۔ سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام اس یاترا کو اپنی تائید فراہم کرتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اس یاترا کو نشانہ بنانے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ ابتداء میںراہول گاندھی کی ٹی شرٹ کی قیمت اور دوسرے غیر اہم امور پر مسائل پیدا کرنے کی کوشش ناکام ہوجانے کے بعد اب ساورکر کے انگریزوں کو روانہ کردہ مکتوب معافی نامہ کو بنیاد بناکر مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ راہول گاندھی نے مہاراشٹرا میںیاترا کے دوران مکتوب کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ساورکر نے انگریزوں سے خوفزدہ ہوتے ہوئے یہ مکتوب روانہ کیا تھا ۔ کانگریس سے اتحاد رکھنے والی شیوسینا نے اس مسئلہ پر کانگریس سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ شیوسینا کا کہنا ہے کہ وہ ساور کر کا احترام کرتی ہے ۔ یہ دو جماعتوں کے مابین نظریاتی اختلاف ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیںہونا چاہئے ۔ شدید نظریاتی اختلاف رکھنے والی پی ڈی پی کے ساتھ بی جے پی نے بھی کشمیر میں اتحاد کرتے ہوئے حکومت بنائی تھی اور وہاں اقتدار میں حصہ داری حاصل کی تھی ۔
شیوسینا کی مخالفت یا عدم اتفاق کے باوجود راہول گاندھی نے ساورکر کے تعلق سے اپنے ریمارکس اور تبصرہ کو اٹل قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ اپنے بیان پر اٹل ہیں۔ یہ در اصل راہول گاندھی کے نظریات ہیں اور وہ ساورکر کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کی دوسری تنظیموں اور جماعتوں کی طرح مجاہد آزادی نہیں مانتے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ساورکر نے انگریزی سامراج میں حکمرانوں سے جیل میںرہتے ہوئے مکتوب کے ذریعہ معافی طلب کی تھی ۔ انہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ انگریزی سامراج کے ہمیشہ وفادار رہیں گے ۔ ساور کر نے جو مکتوب جیل سے روانہ کیا تھا اس کی نقولات آج سارے ملک میں دستیاب ہیں۔ راہول گاندھی نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران اس مکتوب کی نقل پیش کی اور اپنے ریمارکس کئے تھے ۔ یہ جو ریمارکس تھے وہ راہول گاندھی کے شخصی نظریات ہیں اور ان کی پارٹی کا موقف ہیں۔ شیوسینا کی جو بات ہے وہ اپنی پارٹی کے نظریات رکھتی ہے اور اس کا اس مسئلہ پر جداگانہ موقف ہے ۔ دو جماعتوں کا کسی ایک مسئلہ پر علیحدہ موقف رکھنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے ۔ ایسا کئی وقتوں میں ہوا ہے کہ دو مختلف نظریات رکھنے والے ادارے ‘ تنظیمیں یا جماعتیں کسی مقصد کیلئے ایک ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔ جن باتوں یا امور پر اتفاق ہوتا ہے ان کی بنیاد پر ان جماعتوں میں اتحاد ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر آگے کے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں اورا ن کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
جس طرح سے بی جے پی اس سارے معاملے کو پیش کرتے ہوئے شیوسینا کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور کانگریس سے دوریاں پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہیں۔ بی جے پی کو بھی یہ جواب دینا چاہئے کہ ہمیشہ سے بالکل متضاد نظریات رکھنے والی پی ڈی پی سے جموں و کشمیر میں اتحاد کیوں کیا گیا تھا اور کیوںوہاںمخلوط حکومت بناتے ہوئے بی جے پی اقتدار میںشریک ہوئی تھی ؟ ۔ در اصل بی جے پی کا مقصد اب تک بہت کامیاب رہنے والی بھارت جوڑو یاترا کے تعلق سے غلط فہمیاں پیدا کرنا اور عوام کو اس یاترا سے دورکرنا ہی دکھائی دیتا ہے جو شائد ہی پورا ہوسکے ۔