سب کیلئے انصاف کہاں ہے؟

   

پی چدمبرم
ہم لوگوں یعنی عوام کو ایک بہترین دستور ملا اور ہم نے اس دستور کو پورے جذبہ کے ساتھ اپنایا، اس کی وجہ یہ تھی کہ عوام کیلئے یہ ستور مدون کیا گیا تھا اور ہم عوام نے ہی اسے بڑے عزت و احترام سے قبول کیا۔ جہاں تک دستور ساز اسمبلی کا سوال ہے ایک فرد، ایک ووٹ کے اصول کی بنیاد پر وہ تشکیل نہیں دی گئی تھی اسے لہذا عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں کہا جاسکتا تاہم ابھی تک قطعی نتائج کی بنیاد پر اسے جانچا گیا، دستور ساز اسمبلی نے ہندوستان کے تمام عوام کیلئے بات کی یہ دستور ہی ہے جس نے ایمرجنسی (1975-77) جیسے انتہائی دباؤ و کشیدگی کے حالات (1979-80) میں مرکزی حکومت کے قبل از وقت زوال سے دوچار ہونے کے وقت میں بھی اپنی لچکداریت کو ثابت کیا۔ یہاں تک کہ بے شمار ترمیمات کے باوجود اس نے اپنی بقاء کو یقینی بنایا اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ لاکھ ترمیمات کے باوجود دستور کے بنیادی ڈھانچہ میں کوئی فرق نہیں آیا۔

جب ممتاز قانون داں نانی پالکھی والا نے ناقابل تبدیل و ناقابل ترمیم دستور کے بنیادی ڈھاچے کا نظریہ پیش کیا ان کی اس دلیل اور نظریہ کا کئی ایک اسکالرس اور ماہرین قانون نے مضحکہ اُڑایا اور اُلٹا یہ سوال کردیا کہ عاملہ کی جانب سے مقرر کردہ یا تقرر کردہ ججس کسی طرح ایک مقتدر اعلیٰ پارلیمٹ کو حاصل دستور ( آرٹیکل 368) میں ترمیم کا اختیار گھٹا سکتے ہیں اور اس پر نظر ثانی کرسکتے ہیں۔ اس فقرہ نے کروڑوں عوام کے قلوب میں آرزؤں کی شمع روشن کی ہے اور عوام کے قلوب و اذہان میں امید و عزائم اور تمناؤں کی لو جلائے رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ 26 جنوری 2020 کو ہم دستور کی 70 ویں سالگرہ منائیں گے ۔ اب وقت آچکا ہے کہ مشکل سوالات پوچھے جائیں۔ کس کو سماجی انصاف ملا ہے اورکسے نہیں ؟ معاشی انصاف کیا ہے؟ آیا تمام شہریوں کو معاشی یا اقتصادی انصاف ملا ؟یہاں تک کہ تمام شہری سیاسی ووٹ رکھتے ہیں ایسے میں کیا ان تمام کوسیاسی انصاف حاصل ہوا ؟

صدیوں سے اگر ہم ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اہرام کے نچلے حصہ میں رہنے والے لوگ درج فہرست طبقات و قبائل پسماندہ طبقات میں رہے اور ان میں سب سے زیادہ پسماندہ خواتین اور اقلیتیں دیگر محروم طبقات کے زمرہ میں آتے ہیں یا شامل ہیں۔ آج کے ہندوستان میں جس طرح دلت، قبائیلی اور مسلمانوں کی حالت زار ہے اسی طرح ریاستہائے متحدہ امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کی حالت تھی۔ لیکن سیاہ فام باشندوں کی حالت زار میں تبدیلی غلامی کے خاتمہ اور سیول رائیٹس ایکٹ 1963 کیلئے خانہ جنگی کرنی پڑی اور اس طرح وہاں سیاہ فام باشندوں کو قبول کرنے مثبت اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مساویانہ مواقع فراہم کرنے کا آغاز ہوا۔ ہندوستان میں ہمارے پاس ایک ایسا دستور ہے جو چھوت چھات کو ناپسند کرتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو ممنوع قرار دیتا ہے اور درج فہرست طبقات و قبائل کو تحفظات فراہم کرتا ہے اس کے باوجود یہ حقیقت ہے سماج کے محروم طبقات کی اس کی تعلیم اور نگہداشت صحت اور سرکاری ملازمتوں میں تقررات تک نہیں ہے یعنی یہ تمام محروم طبقات کی رسائی سے دور ہیں۔

غریبوں کے خلاف امتیاز :۔ میں نے امکنہ ، جرائم زیر دریافت قیدیوں اور کھیل کود کی ٹیموں میں نمائندگی سے متعلق ڈاٹا کا حوالہ نہیں دیا جو یہ بتاتا ہے کہ درج فہرست طبقات و قبائیل اور مسلمانوں کے ساتھ سماجی امتیاز برتا گیا ہے اور برتا جارہا ہے اور انہیں نظرانداز کیا گیا وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ ساتھ تشدد کے دور سے گذر رہے ہیں۔ جہاں تک اقتصادی انصاف کا سوال ہے یہ دراصل سماجی انصاف کی اولاد ہے ۔ سماج کے نظر انداز کردہ اور محروم گروپوں کی حالت زار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں تعلیم کی کمی پائی جاتی ہے۔ ان کے ہاں جائیداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت ہی کم لوگ سرکاری ملازم ہیں یا معیاری روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔ ا ن لوگوں کی آمدنی اور خرچ بھی بہت کم ہے۔
بدترین حالات : ۔سیاسی انصاف کا تیسرا وعدہ بدترین حالات کا خاتمہ ہے۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ منتخبہ اداروں کی نشستیں اور حلقے محفوظ ہیں۔ یعنی تحفظات فراہم کئے گئے ہیں۔ منتخبہ اداروںبشمول ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں درج فہرست طبقات و قبائل منصفانہ نمائندگی حاصل ہے لیکن وہاں سیاسی انصاف ایسا لگتا ہے کہ رُک گیا یا روک دیا گیا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں میں فیصلہ ساز مجلسوں میں درج فہرست طبقات و قبائیل کی نمائندگی علامتی نمائندگی سے زیادہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ درج فہرست طبقات اپنی خود کی سیاسی جماعت ( بی ایس پی ۔ وی سی کے ) قائم کرتے ہیں تو ان کی تائید کرنے والے سیاسی ووٹرس تک محدود ہیں اور جب تک وہ وسیع تر سماجی اتحاد ( بہوجن ) یا سیاسی اتحاد تشکیل نہیں دیتے، تب تک وہ آگے نہیں بڑھ سکتے دوسری طرف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے کیس میں صورتحال بہت ہی ابتر ہے۔ بڑی بڑی قومی جماعتوں میں اگرچہ اقلیتی شعبےMinority Cells ہیں لیکن صف اول کے لیڈروں سے مسلمان بہت کم ہیں اس کے برعکس بی جے پی نے مسلمانوں کو کھلے طور پر نظر انداز کیا اور ااب انہیں این آر سی، سی اے اے اور این پی آر میں اُلجھا کر رکھ دیا۔ دوسری طرف انڈین یونین مسلم لیگ یا کُل ہند مجلس اتحادالمسلمین اتحاد کی شراکت دار ہیں یا دوسری سیاسی جماعتوں کے مواقع تباہ کرتے ہیں۔ ان جماعتوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ کبھی فاتح نہیں ہوئیں۔
جہاں تک مسلمانوں کے کاز کا سوال ہے انہیں بہت کم تائید حاصل ہوتی ہے یا پھر ان کی شدت سے مخالفت کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جموں و کشمیر کے کاز پر غور کیجئے ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ جموںو کشمیر میں رہنے والے 7.5 ملین عوام کا کاز اپنی اہمیت کھوتا جارہا ہے، وادی تو اب ایک مرکز ی زیر انتظام علاقہ میں تبدیل ہوگئی ہے ویسے بھی وادی 5 اگسٹ سے محاصرہ میں ہے۔ سال 2019 میں دہشت گردانہ واقعات پچھلے دس برسوں میں سب سے زیادہ ہوئے ہیں۔ اس طرح ہلاک اور زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہ۔ 601 افراد ہنوز حراست میں ہیں ان میں ریاست کے تین سابق چیف منسٹرس بھی شامل ہیں، ان تمام کو الزامات کے بغیر حراست میں رکھا گیا ہے۔ میڈیا حکومت کی ہاں میں ہاں ملاکر یہی بتارہا ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں اور دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ سارا ملک کشمیری عوام کو فراموش کرچکا ہے۔2019 میں کشمیر کے حالات پر و درخواستیں عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئیں اس پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ محفوظ رکھا ہے ۔ ہر روز دستور کی پامالی کی جارہی ہے۔ کروڑہا عوام کو سماجی، سیاسی اور معاشی انصاف سے محروم رکھتے ہوئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے یہ Constitutional defilement کا کیس ہے ، لیکن ہمیں عدالت کے فیصلہ کا انتظار کرنا ہوگا۔ دستور سازی کے 70 سال بعد بھی نصف سے زائد شہریوں کو انصاف نہیں مل پارہا ہے اور مابقی کیلئے ٹکڑوں ٹکڑوں میں انصاف دستیاب ہے۔