سحر ، نجوم اور بدعملیا ت۔ اسلامی نقطۂ نظر

   

اس بات میں شک نہیں کہ زمانہ جوں جوں قیامت کی طرف بڑھ رہا ہے اسی طرح ایمان بھی عام طورپر کمزوریوں کا شکار ہوتا چلاجارہاہے ۔ یہ ایمان و اعتقاد کی کمزوری ہی تو ہے کہ ہربلا و پریشانی اور تکلیف و بیماری سے متاثر ہوتے ہی مسلمان جادو اور بداعمال کی طرف شک میں مبتلاء ہوتے ہوئے اپنے اعزاء و اقارب کو محض بے بنیاد وہم کی بناء پر اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوا رشتے توڑکر وساوس کا پرستادہ بنتا جارہا ہے ۔ سحر کے سچ ہونے میں دورائے نہیں لیکن حقیقی فعل اور نفع و نقصان تو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے سپرد ہے اور یہ صرف اس کی شان ہے ک اس کی مرضی کے خلاف کسی طاقت میں اثر نہیں کہ نقصان یا فائدہ پہنچاسکے۔ سحر اور عملیات یا نجومیوں کا سہارا لیکر اپنی دنیا کو سنورانا یا راحت کا سامنا کرنا حرام ہے اور بعض اوقات کفر اور بے دینی کی طرف لے جاتا ہے جس کا علم انسان کو نہیں ہوتا ۔ اﷲ تعالیٰ اس شیطانی مکروعمل کے تعلق سے ارشاد فرماتا ہے : ’’اور اُنھوں نے اس ( جادو کے کفریہ کلمات) کی پیروی کی جس کو سلیمانؑ کے دورِ حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، اور سلیمانؑ نے کوئی کفر نہیں کیا ، البتہ شیاطین ہی کفر کرتے تھے ، وہ لوگوں کو جادو ( کے کفریہ کلمات) سکھاتے تھے ، اور اُنھوں نے اس ( جادو) کی پیروی کی جو شہربابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اُتارا گیا تھا اور وہ (فرشتے ) اس وقت تک کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک کہ یہ نہ کہتے ہم تو صرف آزمائش ہیں تو تم کفر نہ کرو ، وہ ان سے اس چیز کو سیکھتے جس کے ذریعے وہ میاںبیوی کے درمیان علحدگی کردیتے اور اﷲ کی اجازت کے بغیر اس ( جادو) سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے ۔ وہ اس چیز کو سیکھتے جو ان کو نقصان پہنچائے اور ان کو نفع نہ دے اور بے شک وہ خوب جانتے تھے کہ جس نے اس (جادو) کو خریدلیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کیسی بری چیز ہے وہ جس کے بدلہ میں انھوں نے اپنے آپ کو فروخت کرڈالا ہے ، کاش یہ جان لیتے ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ ، آیت :۱۰۲)
آیت مذکورہ میں صاف صاف اﷲ تعالیٰ نے جادو کو کفر سے عبارت کیا اور اس کی مدد سے میاں بیوی میں اختلافات جو بنی اسرائیل میں بہت زیادہ مشہور عمل تھا اس کا ذکر کرکے ان تمام ہی عملیات کا رد فرمایا جو آپسی اختلافات کے لئے کئے جاتے ہیں چاہے وہ بیٹی کے سسرال میں نااتفاقی پیداکرنا ہو یا بہو اور بیٹے کے درمیان تصادم ہو یا اس جیسا کوئی عمل ۔ یہ تمام اعمال آخرت کو ضائع کرنے والے اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔ اگرچہ کوئی اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا اسم پاک لینے والا ہی کیوں نہ ہو ۔ چاہے وہ خود کو کتنا ہی ولی و بزرگ بتائے اگر لحاظِ شریعت ، صلہ رحمی ، حقوقِ انسانی کو پامال کرنے والا اور شیطان و نفس کو خوش کرنے والا عمل ہے تو وہ کفر ہے ۔

سحر کے معنی بتاتے ہوئے علامہ زبیدی رقمطراز ہیں : تہذیب میں مذکور ہے کہ کسی چیز کو اس کی حقیقت سے دوسری حقیقت کی طرف پلٹ دینا سحر ہے ، کیونکہ جب ساحرکسی باطل کو حق کی صورت میں دکھاتا ہے اور لوگوں کے ذہن میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ وہ چیز اپنی حقیقت کے مغائر ہے تو یہ اس کا سحر ہے ‘‘۔ (تاج العروس)
علامہ بیضاوی لکھتے ہیں : ’’جس کام کو انسان خود نہ کرسکے اور وہ شیطان کی مدد اور اس کے تقرب کے بغیر پورا نہ ہو اور اس کام کیلئے شیطان کے شر اور خبیث نفسی کے ساتھ مناسبت ضروری ہو اس کو سحر کہتے ہیں‘‘ (انوارالتنزیل)

نیز اﷲ تعالیٰ نے سحر کے ایک خاص معنی کی طرف قرآن مجید میں بھی ارشاد فرمایا : ’’پھر جب اُنھوں نے ڈال دیا تو موسیٰ نے کہا جو کچھ لائے ہو وہ جادو ہے ، بے شک عنقریب اﷲ اس کو نیست و نابود کردے گا، بے شک اﷲ فساد کرنے والوں کے کام کی اصلاح نہیں فرماتا‘‘۔ (سورۃ یونس ، آیت:۸۱)
جب موسیٰ ؑ فرعون کے محل میں جادوگروں سے مقابلہ کرنے پہونچے تو اُن سے کہا کہ تم اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈال دو تو جیسے ہی جادوگروں نے ڈالا وہ آنکھوں کا دھوکا اور محض ملمع کار ثابت ہوئی جس کا بطلان یوں ظاہر ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ وہ اپنے کلمات سے حق کا حق ہونا ثابت فرمادے گا ۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے عصا کو اژدھا بناکر جو ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو کھاگیا تھا ، یہ ان کے سحر کی حقیت ہے کہ کبھی کسی چیز کی حقیقت نہیں بدلتی بس ظاہری شکل و صورت کو بدل کر لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے ۔
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ گھیٹی یا گرہ ڈال کر یا کسی دیگر اوراق کے سہارے سے گرہ ڈالنا اور پھونک مارنا یہ شیطانی اعمال سے ہیں۔ اس کے کرنے اور کروانے سے بچنا چاہئے۔ جو لوگ دفاع کا نام لیکر یہ سب کرتے ہیں اور لوگوں میں خاندانوں میں یا اپنے ہی گھروں میں پھوٹ ڈالتے ہیں یا کسی کی صحت یا ثروت کو نقصان پہنچانے کے لئے کرتے ہیں تو یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے جس کی معافی برات اور قدر جیسی متبرک راتیں بلکہ رمضان المبارک کی کسی رات میں بھی حاصل نہیں ہوتی ۔
اﷲتعالیٰ نے ایسوں سے پناہ مانگنے اور ان کے طلسم اورمنتروں کو توڑنے کیلئے سورۂ فلق اور سورۂ ناس کا نزول فرمایا اور اس میں کہا کہ ’’(میں پناہ لیتا ہوں ) گرہ میں بہت پھونک مارنے والی عورتوں کے شر سے اور ان حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے ‘‘۔ ( سورۃ الفلق ) ’’(میں پناہ لیتا ہوں ) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والے بار بار وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے ۔ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے جو جنات اور انسانوں میں سے ہے ‘‘۔ (سورۃالناس )
ان عملیات بد اور جھوٹے بدفالی کرنے والوں اور جادو کرنے والوں سے اجتناب کریں ۔ ہردرد کی وجہ کسی کا جادو اور ہر تکلیف کی وجہ کسی کا عمل بد نہیں ہوتا ۔ ایسے لوگوں کے دروازوں پر جانا اﷲ تعالیٰ کی مزید ناراضگی کا سبب ہے ، اچھے اور بُرے کی تمیز صرف یہ ہے کہ جو اچھا ہے وہ کسی کا نقصان یا کسی کی برائی نہیں چاہتا اور جو چاہے کہ بُرا ہو اور اس کا عمل کسی کی زندگی رسوائی میں بدل ڈالے تو وہی مکر والا(بُرا) ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچو ، صحابہ نے پوچھا یا رسول اﷲ ! وہ کون سے کام ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : اﷲ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو کرنا ، جس کو قتل کرنے سے اﷲ نے منع کیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، میدانِ جہاد سے پیٹھ پھیرکر بھاگنا اور مسلمان پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا ۔ (بخاری ومسلم )
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ فی نفسہ جادو کرنا حرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے ، اگر جادو کے عمل میں شرکیہ اقوال یا افعال ہوں تو پھر جادو کرنا کفر ہے ۔ ان جادوگروں کے پاس جانا ، ان سے مدد لینا اور ان سے ایسے اعمال سیکھنا سب حرام اور گناہِ کبیرہ ہے جس کی بخشش و مغفرت کی دعائیں بھی اﷲ تعالیٰ مقدس ایام و لیال میں بھی قبول نہیں فرماتا ۔
اﷲ تعالیٰ کا خوف طاری رکھنا اور بداعمالیوں سے اجتناب کرتے ہوئے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے اور ثابت شدہ مداوا پر عمل کیا جائے اور نماز اور صبر کے ساتھ اﷲ کی مدد چاہیں تو یہ اﷲ کی خوشنودی کا سبب ہے ۔ ہرچند کے حضور اکرم ﷺ نے جادو اور بدعملیات سے بچنے کے نسخے نہ صرف بیان فرمائے ہیں بلکہ بذاتِ خود عمل بھی فرمائے ۔ ان کو ائمہ اربعہ کے نزدیک مستحسن اور مسنون قرار دیا گیا ہے جن سے فائدہ حاصل کرنا اپنی خیر کے لئے ،نہ کہ کسی کو تکلیف یا جدا کرنے کے لئے جائز ہے اور اس ضمن میں شریعت سے آگاہ اور وابستہ شیوخ سے اکستاب فیض کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے ظاہری شریعت کی صورت کافی نہیں باطن میں مزاج بھی شریعت کے مخالف نہ ہو اور شریعت دکھاکر لوگوں کو گمراہی کا شکار بنانے والا نہ ہو ۔ واﷲ اعلم ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں ہدایت کے راستوں پر ثابت قدمی عطا فرمائے اور شریعت کا مزاج اور سنت نبویؐ کی پیروی میں زبان علم وعمل کی یکجہتی عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین و آلہٖ الطیبین ۔