پرہیز علاج سے بہتر ہے اور احتیاطی تدابیر سے بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہم مانتے ہیں کہ آج کے دور میں علاج بہت مہنگا ہوچکا ہے بلکہ غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہے لیکن پرہیز اور احتیاط ایک ایسی نایاب چیزیں ہیں کہ اس پر آپ کے پیسے خرچ نہیں ہوتے یا یوں کہا جائے کہ بہت کم خرچ ہوتے ہیں۔ آج کل کے موسم کی مناسبت سے دیکھا جائے تو ہر ایک کو نزلہ زکام اور بخار نے جکڑ رکھا ہے، بچوں اور بزرگوں میں سینے کی کئی بیماریاں اور جوان الرجی اور گلہ درد کے بھی شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک عام وجہ سردی سے بچاؤ کا مناسب دیکھ بھال نہیں ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اب کی بار پچھلی دو دھائیوں سے زیادہ سردی پڑرہی ہے اور میڈیا کی بدولت اب یہ بات ہم سب کو معلوم ہوچکی ہے۔ اب سردی زیادہ ہے لیکن ہم نے اسی ملک میں رہنا ہے اور اپنے کام کاج بھی کرنے ہیں اور سب سے بڑھ کر بچوں کوسخت سردی میں صبح سویرے اُٹھ کر اسکول بھی جانا ہے لہٰذا ہمیں خود بھی اور بچوں کو بھی سردی سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کرنی ہیں اور ان میں سب سے آسان اور سستا کام ہے کہ ہم ان کے لباس پر توجہ دیں تو کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے جو ٹھنڈ لگ جانے یا سردی سے ہوتی ہیں۔ لباس ہماری شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے، لباس سے کسی خاص علاقہ کی شاندار روایات کی بھی جھلک ملتی ہے اور کبھی کبھار فیشن کی زد میں آکر لباس مغرب اور مشرق کی تہذیبوں کو گڈمڈ بھی کر دیتا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ لباس اصل میں ہے کس علاقے کا۔ لباس فیشن زدہ ہو یا تہذیبوں کا امین دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ ہمیں موسمی اثرات سے محفوظ رکھ پائے گا کہ نہیں۔ گرم موسم میں جہاں سادہ اور کم لباس ضروری ہے تو سردی کے موسم میں بھڑکیلے رنگوں کیساتھ ساتھ قوس قضاء کے رنگوں کو سمیٹے ہوئے سویٹر اور شال بھی انسان کی مجبوری ہوجاتی ہے۔ سردی کے موسم میں ہمارے یہاں سردی بہت جم کے ہوتی ہے۔ اس سردی سے بچنے کیلئے ہمیں اپنے آپ کو پوری طرح ڈھانپ کر رکھنا ہوگا۔ بڑے تو کسی طور گزارہ کررہے ہیں لیکن اس خشک سرد موسم سے بچاؤ کیلئے بچوں خاص طورپر معصوم بچوں کے لباس پر بہت توجہ کی ضرورت ہے۔یوں تو گھر بھر کے لباس کا زیادہ اندازہ اور تجربہ گھر کی خواتین کو ہوتا ہے مگر بالخصوص بچوں کے لباس میں مرد حضرات کا علم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور ایک ماں خوب جانتی ہیں کہ ان کے بچے کو کس وقت کیا پہننا ہے۔ اس میں گرم وسرد موسم سے بچاؤ کا طریقہ بھی ہوتا ہے اور وقت کے فیشن کے عین مطابق ہونے کا سلیقہ بھی۔ فیشن بھی ضروری ہے کیونکہ وقت کیساتھ ساتھ بھی چلنا پڑتا ہے اور کوئی بڑا یا بچہ فرسودہ یا دس بیس سال پرانے فیشن کا لباس زیب تن کرلے تو بھی معیوب سمجھا جاتاہے، تاہم سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ہم اپنے پھول جیسے بچوں کو سردی کے مضراثرات سے زیادہ سے زیادہ بچائیں۔ اگر کوئی لباس ایسا ہے کہ جو سردی سے بچاؤ بھی دے اور فیشن کے تقاضے بھی پورے کرے تو پھر اسے ہم بہترین لباس کہیں گے اور یہ سلیقہ خواتین کو خوب ہے اور وہ بچوںچاہے وہ بچہ لڑکا ہو یا لڑکی لباس خریدتے وقت ان دونوں ہی باتوں کا خیال رکھتی ہیں۔