لو آج ہم نے تو ڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلا نہ کریں گے کسی سے ہم
سرزمین فلسطین کا تحفظ ضروری
اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو بروئے کار لانے کیلئے ہر گوشے سے کوشش کررہا ہے۔ فلسطینیوں کی سرزمین کو ہڑپ لینے کی سازش کو کامیاب بنانے میں اسرائیل کی کئی ممالک درپردہ طور پر مدد کررہے ہیں۔ اس طرح کی مدد کے حصہ کے طور پر صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان لڑائی کو ختم کرنے کے لئے ایک منصوبہ پیش کیا جس کو عرب لیگ نے یکسر طور پر مسترد کردیا۔ قاہرہ میں منعقدہ عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں مشرق وسطیٰ پر عرب کا منصوبہ زیر بحث آیا۔ عرب لیگ کے قائدین نے امریکہ کے اس منصوبہ میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی تھی، مگر اس معاہدہ میں فلسطینی عوام کے کم از کم حقوق اور خواہشات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اس منصوبہ کو روبہ عمل لانے سے انکار کرتے ہوئے عرب ممالک نے امریکی نظم و نسق کی موافق اسرائیل سوچ پر افسوس کا اظہار کیا۔ اسرائیل 1967ء کی جنگ سے قبل کی سرحدوں پر فلسطینی مملکت کے حدود کو ہڑپ کر اپنا قبضہ جمانے کی توثیق کرنا چاہتا ہے۔ مغربی کنارہ، غزہ اور مشرقی یروشلم پر اسرائیل قابض ہوچکا ہے، لیکن ان علاقوں سے دور ہونے تیار نہیں ۔ عرب لیگ کو اسرائیل کے جارحانہ رویہ پر شدید اعتراض ہے اور مستقبل میں مشرقی یروشلم کو فلسطینی مملکت کا دارالحکومت بنانے پر زور دے رہے ہیں۔ صدر فلسطین محمود عباس نے بھی صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ منصوبہ کے خلاف سخت موقف اختیار کرلیا۔ اسرائیل اس منصوبہ کو زبردستی فلسطین پر مسلط نہیں کرسکتا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ ہی وائٹ ہاوز میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کیلئے 181 صفحات کی تجاویز والا منصوبہ تیار کیا تھا۔ امریکہ ایک طرف اسرائیل کی غیرقانونی سرگرمیوں اور غاصبانہ کارروائیوں پر خاموش ہے تو دوسری طرف 2017ء میں اس نے یروشلم یا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔ اس طرح امریکہ کا یہ دوہرا رویہ فلسطینی عوام اور مشرق وسطی کی صورتحال کو بہتر بنانے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اسرائیل نے صدر ٹرمپ کے ’’صدی معاہدہ‘‘ کو عظیم اقدام قرار دے کر قبول کرلیا۔ ظاہر بات ہے جب یہ مسودہ معاہدہ اسرائیل کی عین خواہش اور منصوبوں کے مطابق ہی تیار کیا جائے تو اس کو مسترد نہیں کیا جائے گا۔ عرب ممالک ہی کو معاہدہ کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار ہے۔ عرب لیگ نے اب اس معاہدہ کو مسترد کردیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک مستقل امن کا قیام کے لئے کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطینیوں نے امریکہ کے اس معاہدہ کے سامنے آنے سے پہلے ہی اپنا موقف واضح کردیا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے منصوبہ کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ امن منصوبہ محض بنجامن نیتن یاہو کو رشوت ستانی کے معاملوں میں جیل جانے سے روکنے کا حربہ ہوسکتا تھا۔ اب جبکہ فلسطینی عوام اور عرب لیگ نے اسرائیل اور امریکہ کے ارادوں کو بھانپ لیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی نازک صورتحال سے بھی واقف ہیں تو فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کو نکال باہر کرنے کیلئے ٹھوس کوشش کی جانی چاہئے۔ اگر خاموشی اختیار کرلی جائے تو پھر فلسطینی علاقہ دن بہ دن سکڑتے جائیں گے۔ اسرائیل نواز صدر ٹرمپ کو اس سال صدارتی انتخاب میں اسرائیلی حامی رائے دہندوں کے ووٹ لینا ہے۔ اس لئے وہ اسرائیل ۔ فلسطین کے لئے اپنے امن صدی معاہدہ کو روبہ عمل لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ قانون اور اصولوں پر چلنے والے امریکی عوام کے منتخب صدر ٹرمپ کو بیرون امریکہ غیرقانونی کوششوں سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ امریکہ کا مہذب معاشرہ غیرقانونی اور غیراصولی کارروائیوں کو پسند نہیں کرتا۔ صدر فلسطین محمود عباس، امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے حامی سمجھتے ہیں لہٰذا صدر ٹرمپ کو چاہئے کہ وہ محمود عباس کے بھروسہ کو نہ توڑیں۔