فہمیدہ بیگم
کچھ شخصیات زمانے میں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر‘پڑھ کر ‘ اس زمانہ کی تہذیب و شائستگی کا اندازہ ہوجاتا ہے پھر شہر حیدرآبادتو ایسی نابغہ ٔ روزگار ہستیوں کا مولود ومسکن رہا ہے ۔ ان عبقری شخصیات میں ایک ایسی منفرد ہستی ’’سر نظامت جنگ بہادر‘‘ کی بھی رہی ہے ۔ جنہوں نے اپنے علم و عمل سے زمانہ کی دیواروں پر ایسے انمٹ نشان چھوڑے کہ کئی سال گزرنے کے باوجود بھی وہ دھندلے نہیں پڑے ۔ بڑے لوگوں کے بڑے معاملے ہوتے ہیں مگر ‘میں نے جب ’’سر نظامت جنگ ‘‘کے احوال‘ ان کی صلاحیتوں اور دور رس نگاہوں کا مطالعہ کیا تو مذکورہ مقولہ ان پر صادق نظر آیا ۔ انسان کیا تھے کہ ایک انجمن تھے ایک وزیر، ایڈمنسٹریٹر، محب وطن ، قوم وملت کے ہمدردہونے کے ساتھ درد مند دل کے حامل تھے گویا خدائے تعالیٰ نے انہیں اعلیٰ تربیت کے ساتھ اعلیٰ تعلیم ، اعلیٰ اخلاق وصفات سے مزین کیا تھا ۔ امیرکبیر ہونے کے باوجودایک درویشانہ زندگی بسر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ، ساتھ ہی نیکی کا یہ انداز کہ کس ہاتھ سے کیا دیا اس کی کوئی نمائش نہیں ۔ یہ تو رہے چند تمہیدی کلمات…!!
نفسِ مضمون پر خامہ فرسائی سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جن کے نام سے متذکرہ بالا لائبریری قائم کی گئی ہے ان کے بارے میں کچھ تفصیلات بتلائی جائیں ۔
سر نظامت جنگ، رفعت یارجنگ اولیٰ کے فرزند ِ دلبندتھے۔ 22؍اپریل 1871ء کو حیدرآباد میں تولد ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔ بعد ازاں آپ کچھ دنوں کے لیے ’’آل سینٹس انسٹی ٹیوشن‘‘میں شریک رہے پھر بعد کو انہیں ’’مدرسۂ اعزاہ‘‘ میں داخلہ دلوایا گیا ۔ گھر کا ماحول بااخلاق اور سلیقہ شعارتھا جس کا راست اثر ان کی شخصیت پر خوب پڑا۔ اس طرح تعلیم کے مختلف مدارج نہایت کامیابی کے ساتھ طے کئے اور حکومت کے وظیفہ پر مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے 1887ء میں انگلستان بھیجے گئے ۔ یہاں سے انہوں نے 1891ء بی ۔ اے کی تکمیل کی اور اس کے بعد ایل ۔ ایل ۔ بی کی سند حاصل کی ۔ اس طرح سر نظامت جنگ کو ریاست حیدرآبادمیں یہ امتیاز حاصل رہا کہ ولایت جا کر مذکورہ ڈگریاں حاصل کرنے والے آپ پہلے فردِ فرید قرار پائے ۔ محض20 سال کی عمر میں یہ کارنامہ انجام دیا ۔ تعلیمی مراحل کا یہ سلسلہ یہیں پر نہیں تھما آپ نے اس کے بعد 1895 ء میں قانون کی اعلیٰ ڈگری بارایٹ لا حاصل کی پھر 1896 ء میں کیمبرج سے ایم ۔ اے بھی کامیاب کیا ۔ ولایت سے واپسی پر آپ کی علمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ناظم عدالت ضلع پربھنی مقرر کیا گیا ۔ یہیں سے سر نظامت جنگ کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں آپ کئی مقتدر عہدوں پر فائز رہے ۔ جج ہائی کورٹ ، چیف جسٹس اور معتمد سیاسیات قابل ِ ذکر ہیں ۔ وزیر سیاسیات کے عہدہ پر آپ کوئی دس سال فائز رہے ۔ اور 2؍جنوری 1930 ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔
سر نظامت کی حسن کارکردگی کی بناء انہیں آصف سادس نواب میر محبوب علی خان نے ’’جشن جوبلی چہل سالہ ‘‘ تقریب 1905 ء کے موقع پر ’’نواب نظامت جنگ بہادر‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا ۔ جب کہ حکومت برطانوی ہند کی جانب سے بھی انہیں عمدہ کارکردگی کے باعث1919ء میں او ۔ بی۔ آئی 1924 ء میں سی آئی ای اور 1934 ء میں نائٹ ہڈجیسے خطابات دیئے گئے ۔
سر نظامت جنگ اتنے اعلیٰ اور ذمہ دار عہدوںپر فائز ہونے کے باوجود اپنی مذہبی فکر سے جڑے رہے ۔ دانشور ، مفکر اور انگریزی زبان کے اعلیٰ پایہ کے شاعر کی حیثیت سے بھی بہت مشہور ہوئے ۔ اس کے علاوہ آپ فارسی زبان میں بھی شاعری کیا کرتے تھے ۔ حمدیہ ، نعتیہ ، منقبتیہ اوتہنیتیہ کلام آپ کی یادگاریں ہیں ۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد علمی و ادبی مشاغل میں منہمک ہوگئے ۔ گوشہ نشینی آپ کے مزاج کا خاصہ رہا ۔ تا عمر تجرد رہے ۔ اس طرح سر زمین ِ دکن کی اس عظیم عبقری شخصیت نے 22؍نومبر1955 ء کو انتقال کیا ۔ اتنے عرصے گزرنے کے بعد بھی دکن کی رعایا آپ کے کام اور نام کواپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے جس کا بین ثبوت’’سر نظامت جنگ میموریل لائبریری ‘‘ ہے ۔ جو نارائن گوڑہ میں واقع ’’کل ہند تعمیر ملت ‘‘کے روبرو واقع ہے ۔
سر نظامت جنگ لائبریری کا قیام 7 ؍جنوری 1972 ء میں عمل میں آیا تھا ۔ جس کا سنگ بنیاد اس وقت کے صدرِ جمہوریہ ٔ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کے ہاتھوں 1؍ستمبر1967 ء میں رکھا گیا تھا ۔ نظامس چیارٹیبل ٹرسٹ کے زیر اہتمام اس تعمیر کردہ لائبریری کا افتتاح پرنس عظمت جاہ بہادر نے انجام دیا تھا۔ لائبریری اور اس سے متصل جائیداد کو خود نظامت جنگ نے فلاحی و رفاہی خدمات کے لیے وقف کیا تھا ۔ اس کتب خانے میں نادرو نایاب کتابوں کے علاوہ قلمی نسخے اور کئی مخطوطات موجود ہیں ۔ ایک اندازہ کے مطابق یہاں 12ہزار کتابیں ، 70 مخطوطات(مختلف زبانوں ) کے علاوہ 400 کے قریب انسائیکلوپیڈیا مثلا بریٹا نیکا، امریکانہ وغیرہ دستیاب ہیں ۔ جب کہ مذکورہ کتابیں اردو، فارسی ، اور انگریزی زبانوں میں سماجیات ، تاریخ ، سائنس ، ادب و ثقافت، فن ِ مصوری وغیرہ پر محیط ہیں اسی طرح انسائیکلوپیڈیا میں پیشۂ زراعت اور فن موسیقی کے حوالہ سے معلومات درج ہیں ۔ مخطوطات زیادہ تر دکنی ، فارسی اور عربی زبانوں پر مشتمل ہیں ۔ جو 200 سال سے زائد پرانے ہیں ۔ سر نظامت جنگ میموریل لائبریری میں موجود چند مخصوص مخطوطات و کتابوں کی سرسری تفصیلات دی جارہی ہیں تاکہ قارئین کرام اس کتب خانے کی علمی و ادبی حیثیت کا اندازہ لگا سکیں ۔
(۱) رسالۂ تصوف 1206 ء (۲) رسالہ ٔ اردو نستعلیق 1803ء(۳) طبِ یونانی (۴)مناجاتِ بختیار کاکی ؒ فارسی (۵) بیاض ِ اشعار زیب النساء بیگم ‘دختر اورنگ زیب عالم گیر (۴) غزل ِ حافظ شیرازی (۷) صفاتِ حیوانات ، بدرالدین ۔ وغیرہ وغیرہ
آخر میں اس بات کا ذکر بھی کرتی چلوں کہ یہ لائبریری تقریباً دو دہائیوں سے مقفل تھی جس سے نظامس چیارٹیبل ٹرسٹ کے ارباب مجاز نے حکومت تلنگانہ کو واقف کروایا اس طرح دوبارہ اس اہم کتب خانہ کو ایک نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ ’’تلنگانہ مینارٹیز ریزیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنل سوسائٹی ‘‘کے توسط سے عوام و خواص کے لیے جولائی 2018 ء میں کھولا گیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتب خانہ میں موجود کتابوں کے کٹیلا گس تیار کیے جائیں ساتھ ہی ان کو ڈیجٹلائز کیا جائے نیز کتابوں اور مخطوطات کی تفصیلات فن کے اعتبار سے کمپیوٹرائز بھی کی جائیں تو ریسرچ اسکالر، متلاشیان کتب کو
بڑی آسانی ہوگی ۔ اس کتب خانہ کو نئے شہر میں ایک ایسے علمی و ادبی مرکز کے طور پر فروغ دیا جائے تو اس کی وقعت میں مزید اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ کتابیں ’’صدیوں کا حافظہ‘‘ ہوتی ہیں ۔ وقت رہتے اگر‘ ان کی صحیح نگہداشت نہ کی جائے تو ہماری آنے والی نسلیں اس عظیم و تاریخی ورثہ سے محروم ہوجائیں گی ۔ مجھے یقین ہے کہ سر زمین ِ حیدرآباد کے شائقین ِ علم و ادب سر نظامت جنگ میموریل لائبریری سے ضرور بہ ضرور استفادہ کریں گے ۔
قابل ِمبارک باد ہے ریاستی حکومت کہ اس نے بیش قیمتی علمی سرمایہ کے تحفظ کے لیے اپنا دست تعاون دراز کیا ۔ اب یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کتب خانہ میں موجود انفراسٹرکچر کو اپنی چیز سمجھ کر استعمال کریں تاکہ یہ نسلاً بر قرار رہ سکے ۔