سرکارؐ کی آمد مرحبا… رحمۃ للعالمین

   

سید محمد افتخار مشرف
ماہ ربیع الاول سارے عالم کے مسلمانوں کے لئے رحمت کہلاتا ہے کیوں کہ اسی ماہ کی ۱۲تاریخ بروز پیر صبح صادق ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ لفظ رحمت اپنے مفہوم کی وسعت کے لحاظ سے مہربانی، شفقت، کرم، عفو، مغفرت، درود و صلوٰۃ اور بارش کے معنی دیتا ہے۔ یہ لفظ خالق و مخلوق دونوں کے لئے استعمال ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جملہ نعمتیں اور انعام بجائے خود رحمت ہیں۔ ان سب سے بڑا انعام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جلوہ گری ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بے شک مومنین پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا کہ ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا‘‘۔ اور پھر آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ہم نے تمہیں سارے عالَموں کے لئے رحمت بناکر بھیجا (ق ۔ ۱۰۲؍۲۱) ظہور قدسی کا مقصد ساری انسانیت کی ہدایت ہے۔ (ق ۔ ۲۸؍۲۴)میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ہم نے تمہیں سارے انسانوں کے لئے رسول بناکر بھیجا ہے‘‘۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف پیغام حق پہنچایا بلکہ خود اپنی ہدایت و تعلیمات کا عملی نمونہ اپنی حیات طیبہ، سیرت مبارکہ اور اُسوۂ حسنہ کے ذریعہ پیش کرکے عقیدہ و اطاعت کے تمام فطری و عملی مسائل حل کردیئے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بے شک تمہارے لئے رسولؐ کا اُسوہ بہترین نمونہ ہے‘‘۔
(ق ۔ ۲۱؍۳۲)
ماہ ربیع الاول میں دنیا کے تمام مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کی پیدائش کے موقع پر جشن میلادالنبیؐ مناتے ہیں۔ اپنے اپنے گھروں اور علاقوں کو روشنی سے منور کردیتے ہیں۔ سب کے لئے طعام کا انتظام کرتے ہیں۔ جلسے منعقد کرتے ہیں۔ نعتیہ محفلیں سجاتے ہیں اور خاص کر زیارت موئے مبارک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بنی اسرائیل سے اُن کے نبی (حضرت سمویل علیہ السلام) نے فرمایا کہ طالوت کی بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق (تابوت) آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینہ ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت ہارون علیہ السلام کے بقیہ متروکات ہیں اس کو فرشتے اُٹھا لائیں گے۔ بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم مومن ہو۔ (سورۃ البقرہ : ۲۴۸)
علامہ علاؤ الدین علی بن محمد بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بنی اسرائیل معرکہ جہاد میں جاتے تو صندوق (تابوت) کو آگے رکھتے اور اس کی برکت سے اپنے دشمنوں پر مدد مانگتے تو (اللہ تعالیٰ کی جانب سے) اُن کو مدد ہوتی تھی۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں انبیاء علیہم السلام کے آثار مبارک سے برکت حاصل کرنے کا ثبوت عیاں ہے۔ غور طلب یہ ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی ذات مقدسہ سے منسوب اشیاء کی برکت کا یہ حال ہے تو یقینا سرور کائنات سرکاکر دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے موئے مبارک بدرجۂ اولیٰ بابرکت و فیض رساں ہیں۔
الاصبابۃ فی تمیتر العمانیہ ، تاریخ واقدی، شمس التواریخ، شفا شریف وغیرہ مستند کتابوں میں ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ہیں، وہ جب بھی جنگ میں جاتے اپنی ٹوپی میں رسول اکرم حضرت محمد ﷺکے موئے مبارک رکھتے اور اس موئے مبارک کی برکت سے جس کسی معرکہ میں شریک ہوتے اللہ تبارک و تعالیٰ اُن کو کامیابی عطا کرتا۔
حضرت سیدنا عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ہمیں زیارت کروانے کے لئے ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا ایک قضاب لگا ہوا موئے مبارک لے کر آئیں اور ایک روایت میں انہیں سے مروی ہے کہ اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نبی اکرم ﷺ کا وہ سرخ موئے مبارک دکھایا جو اُن کے پاس بطور تبرک محفوظ تھا۔ (رواہ البخاری و ابن ماجہ)
مقدمہ فتح الباری شرح بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو جلیل القدر محدث بھی ہیں جن کی ولادت۱۹۴ھ وصال ۲۵۶ ھ میں ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چند موئے مبارک تھے جن کو آپ تبرکاً اپنے ملبوسات میں رکھا کرتے تھے۔
علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فتوحات کی حکمت بیان کرتے ہیں ’’جب حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ لوگوں میں حضور اکرم ﷺ کے موئے مبارک تقسیم فرمارہے تھے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان سے پیشانیٔ مبارک کے موئے مبارک کو طلب کیا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے پیشانی مبارک کا بال (موئے مبارک) ان کو عطا فرمائے۔اسی کی برکت سے وہ فتوحات حاصل کئے۔ (عمدۃ القاری شرح البخاری )
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب مدارج النبوۃ میں تحریر فرماتے ہیں کہ روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے آثار مبارک میں سے بعض چیزیں حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں جنھیں اُنھوں نے ایک کمرہ میں بڑے اہتمام کے ساتھ محفوظ رکھا تھا اور ہر روز ایک مرتبہ اِن آثار مبارک کی زیارت کیا کرتے تھے، سادات حضرات (مہمان) جب آپ سے ملاقات کے لئے آتے تو انھیں بھی آثار مبارک کی زیارت کرواتے اور عرض کرتے کہ یہی آثار مبارک تو میرا سرمایہ اور میراث ہیں۔
صحابہ کرام کے اُمت محمدیہ پر بہت احسانات ہیں کہ اُنھوں نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ارشادات و فرمودات، فضائل، شمائل، آثار مبارک وغیرہ کو بڑی جانفشانی کے ساتھ بہ حفاظت اپنے پیروکاروں کو یہ عظیم امانت سونپی اور انھوں نے بھی یہ امانت بڑی محنت سے اپنے بعد والوں کو پہنچایا۔ اس طرح یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور صبح قیامت تک چلتا رہے گا۔ ماہ ربیع الاول میں زیارت آثار مبارک و موئے مبارک کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے جس کو دیکھنے سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور برکتوں کا سرچشمہ ہے۔
کرم سب پر ہے کوئی ہو کہیں ہو
تم ایسے رحمۃ للعالمین ہو