سرکاری خزانہ بھرنے پر توجہ

   

پکوان گیس کی قیمتوں میں آج مزید اضافہ کردیا گیا ۔ ماہ فبروری کے دوران ہونے والا یہ تیسرا اضافہ تھا اور ایک مہینے میں تین مرتبہ میں جملہ 100 روپئے پکوان گیس سلینڈر کی قیمت میں بڑھا دئے گئے اور اس کا راست بوجھ عوام پر عائد ہوتا جا رہا ہے ۔ فیول قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے پہلے ہی کئی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے لگی ہیں اور ان کی وجہ سے عوام کا گھریلو بجٹ پہلے سے متاثر ہوچکا ہے ۔ اب جبکہ حکومت کی جانب سے صرف ایک مہینے میں پکوان گیس کی قیمتوں میں 100 روپئے فی سلینڈر کا اضافہ کردیا گیا ہے تو اس کے اثرات بھی گھریلو بجٹ پر مرتب ہونے والے ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے نتیجہ میں پہلے ہی دوسری اشیا مہینگی ہونے لگی ہیں۔ یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ دودھ کی قیمتوں میں بھی فی لیٹر 12 روپئے تک اضافہ ہوسکتا ہے ۔ دودھ اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات کی اشیا کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس کے نتیجہ میں عام سے عام آدمی کا بجٹ بھی متاثر ہوکر رہ جائے گا ۔ فیول کی قیمتوں کے اضافہ کی وجہ سے ترکاریاں اور دوسری اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کو عوام پر عائد ہونے والے بوجھ کی کوئی فکر نہیں رہ گئی ہے اورا سے صرف اورصرف سرکاری خزانہ کو بھرنے کی فکر لاحق ہے ۔ عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور معمولی کمی و بیشی کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکومت اکسائز ڈیوٹی کے ذریعہ عوام پر بوجھ عائد کرتی جا رہی ہے اور عوام میں یہ تاثر دیا جار ہا ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی منڈی کی قیمتیں پہلے سے کافی کم ہیںاور اس کا فائدہ عوام کو پہونچایا جاسکتا ہے ۔ تاہم ایسا کرنے کی بجائے حکومت اپنے خزانے کو بھرنے میں جٹی ہوئی ہے اور عوام کو ہونے والی مشکلات اور عوام پر عائد ہونے والے معاشی بوجھ سے بالکل ہی لا تعلق ہوگئی ہے اور حالات کی مار سہنے کیلئے عوام کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ حکومت کی یہ لا تعلقی انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ عوام کو راحت پہونچانا حکومت کا ذمہ ہے ۔

گذشتہ چند مہینوں کے اندر اندر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ کردیا گیا ہے ۔ اس کے بعد اب پکوان گیس کی قیمتیں بڑھنے لگی ہیں۔ اس کے بعد دودھ کا نمبر آنے والا ہے ۔ ترکاریاں اور تیل اور دالیں پہلے ہی مہینگی ہوتی جا رہی ہیں۔ عوام کی جیبوں میں پیسہ نہیں رہ گیا ہے ۔ عوام کے پاس روزگار اور ملازمتیں بھی کم ہونے لگی ہیں۔ عوام کی آمدنی میں اضافہ ہونے کی بجائے آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے اور اخراجات میں لامتناہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں سارا گھریلو بجٹ اور عام زندگی متاثر ہونے لگی ہے ۔ حکومت اپنے خزانے بھر نے کی مختلف وجوہات اور بہانے پیش کرتے ہوئے عوام اور ان کی مشکلات اور پریشانیوں سے عملا لا تعلق ہوتی جا رہی ہے ۔ حکومت سرکاری خزانہ بھرنے کی فکر میں صنعتوں اور کارپوریٹس پر کوئی بوجھ عائد نہیں کر رہی ہے بلکہ اپنے حامی اور حاشیہ بردار کارپوریٹس کو مسلسل راحتیں دیتی جا رہی ہے ۔ ان کو راحت دیتے ہوئے سارا بوجھ عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے جس سے یہ الزامات درست لگنے لگتے ہیں کہ حکومت اپنے حاشیہ بردار کارپوریٹس کو فائدہ پہونچانے کیلئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ جو گھریلو بجٹ عوام کا تھا وہ مسلسل متاثر ہوتا جا رہا ہے اور عوام اپنے روز مرہ کے اخراجات اور بچوں کی تعلیم اور ادویات کا خرچ تک برداشت کرنے کے موقف میں نہیں رہ گئے ہیں۔ انہیں دو وقت کی روٹی کی فکر میں ہی اتنا مشغول کردیا گیا ہے کہ وہ کسی اور مسئلہ پر دھیان ہی نہیں دے پا رہے ہیں۔

حکومت کو اپنی آمدنی کی فکر ضرور کرنی چاہئے لیکن یہ ساری فکر کارپوریٹس اور صنعتوں سے اور بڑے تاجروں سے آمدنی بڑھانے کی ہونی چاہئے ۔ عوام پر بوجھ عائد کرنے کی بجائے عوام کو راحت دینے پر حکومت کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کی آمدنی میں اضافہ کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ عوام کو روزگار اور ملازمتیں فراہم کرنے پر توجہ دینے کی ضـرورت ہے لیکن مرکزی حکومت اس کے الٹ کام کر رہی ہے ۔ حکومت کو اپنی ترجیحات اور پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے عوام کو راحت پہونچانے کیلئے جامع اور مبسوط حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ٹیکس ڈھانچہ کو مستحکم کیا جانا چاہئے لیکن یہ سب کچھ عام لوگوں کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے ۔ عام آدمی کو راحت پہونچائی جانی چاہئے ۔