سرکاری ملازمین اور آر ایس ایس

   

سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ دینے والی نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت ایسا لگتا ہے کہ اپنی تیسری معیاد میں بھی اپنے ہی ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی اپنی حلیف جماعتوں کی تائید کے ذریعہ تیسری بار اقتدار پر فائز ہوئے ہیں اس وقت سے ہی ملک میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ اترپردیش میںآدتیہ ناتھ کی حکومت کی جانب سے کانوڑ یاترا کے راستے میں واقع ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں کو اپنے مالکین اور ملازمین کے نام واضح کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سرکاری طور پر فرقہ وارانہ جذبات کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ نے اس حکمنامہ کو معطل کردیا ہے ۔ اب مرکزی حکومت نے سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس سے وابستگی اور اس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دیدی ہے ۔ یہ اجازت پہلے کبھی نہیں دی گئی تھی ۔ آر ایس ایس سے وابستگی پر سرکاری ملازمت کیلئے انتخاب بھی نہیں ہوا کرتا تھا ۔ ملک میں یہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی سیاسی وابستگی کو ترک کرتے ہوئے سرکاری ملازمت اختیار کرنی پڑتی ہے کیونکہ ملک میںحکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ یہ سکیولر ہونی چاہئے ۔ آر ایس ایس بی جے پی کی سیاسی ماںہے اور اس سے وابستگی عملا بی جے پی سے وابستگی قرار دی جاسکتی ہے ۔ یہ وابستگی راست تو نہیں بلکہ بالواسطہ ہے تاہم یہ وابستگی ضرور ہے ۔ آر ایس ایس وہ تنظیم ہے جس نے نصف صدی تک اپنے ہیڈ کوارٹر پر ہندوستان کے قومی ترنگے پرچم کو لہرانے سے انکار کردیا تھا ۔ اس تنظیم کا باضابطہ رجسٹریشن بھی کئی دہوں بعد کیا گیا تھا ۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے اس سے جواب طلب کرنے اور اس کا حساب کتاب دیکھنے کی بجائے سرکاری ملازمین کو اس سے وابستگی کی اجازت دیتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو ہی آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مخالفت کر رہی ہیں۔ ان سب کے باوجود مرکزی حکومت اپنے عزائم اور ایجنڈہ کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنا چاہتی ۔
حالانکہ نریندر مودی حلیف جماعتوں تلگودیشم اور جنتادل یونائیٹیڈ کی تائید سے اقتدار پر فائز ہوئے ہیں اور انہیں اتحادی سیاست کے اصولوں کی پابندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم مودی اپنے رویہ میں کسی طرح کی تبدیلی لانے کیلئے اب بھی تیار نہیں ہیں اور وہ ایک طرح سے حلیف جماعتوں اور ان کی پالیسیوں کو بھی خاطر میں لانے تیار نہیںہیں۔ اب چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ پر اپنے موقف کو واضح کریں۔ انہیںعوام کو یہ بتانا ہوگا کہ آیا وہ بھی اپنے ملازمین کو آر ایس ایس سے وابستگی کی اجازت دیں گے یا نہیں۔ کیا وہ نریندرمودی حکومت کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہیں ؟ ۔ اگر ایسا ہے تو پھر انہیں اپنی اپنی ریاستوں میں عوام کو مطمئن کرنا آسان نہیں رہے گا ۔ آر ایس ایس موافق سوچ رکھنے والے عوام اور تنظیمیں بی جے پی کی حمایتی رہتی ہیں۔ اگر بی جے پی کے ایجنڈہ اور پالیسیوں کو آندھرا پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں مزید پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا گیا تو پھر سیاسی اعتبار سے ان دونوں ہی جماعتوں کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے تو یہ سارے ملک پر عیاں ہے کہ وہ پہلے علاقائی جماعتوں سے اتحاد کرتی ہے ۔ انہیں حلیف بناتی ہے اور پھر اپنا مقصد و منشاء پورا ہونے کے بعد انہیںاچانک ہی منجدھار میںچھوڑ کر علیحدگی اختیار کرلیتی ہے ۔ اس طرح کا تجربہ پہلے چندرا بابو نائیڈو کو ہوچکا ہے ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹرا ‘ جموںو کشمیر اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں بی جے پی ایسا کرچکی ہے ۔
مرکزی حکومت کو ملک کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے معیشت کو مستحکم کرنے ‘ روزگار کے مواقع فراہم کرنے ‘ صنعتی شعبہ کو مستحکم کرنے اور زرعی شعبہ کو پروان چڑھانے کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ عوام کو در پیش مسائل کی یکسوئی پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ مہنگائی کو قابو میںکرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کی بجائے اس طرح کے نزاعی فیصلے کرتے ہوئے ماحول کو مزید پراگندہ کرنے پر توجہ دی جار ہی ہے ۔ حکومت کا یہ فیصلہ اس کے اپنے ایجنڈہ کا عکاس ہے عوامی مسائل کا نہیں۔ اپنے اس فیصلے پر حکومت کو از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس فیصلے سے دستبرداری اختیار کی جانی چاہئے ۔