سری لنکا بحران سے سبق

   

رام پنیانی

سری لنکا میں جاری سیاسی و معاشی بحران نے صرف سری لنکا کی شہریوں کو ہی دہلاکر نہیں رکھا بلکہ پڑوسی ملکوں اور دنیا کو بھی دہلاکر رکھ دیا ہے۔ ساری دنیا اس جزیرہ نما چھوٹے سے ملک کے حالات پر حیران ہے۔ ایک طرف جہاں سری لنکا میں انسانی بحران پیدا ہوگیا، وہیں ہم شہریوں بالخصوص مزدوروں، تامل اور مسلم اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اوسط لوگوں پر آمرانہ امتیازی پالیسیوں کو زبردستی عائد کئے جانے کے اثرات دیکھ سکتے ہیں جس انداز میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں برہم لوگوں نے صدارتی محل کا گھیراؤ کیا۔ اس میں داخل ہوئے اور پھر وزیراعظم کی خانگی قیام گاہ کو آگ لگا دی۔ وہ مناظر بڑے وحشت ناک تھے۔ غذائی اشیاء، پٹرول، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت اور خطرناک حد تک بڑھتی مہنگائی نے اس جزیرہ نما ملک کے 25 ملین عوام کی مصیبتوں کو بڑھا دیا تھا۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔
جہاں تک سری لنکا کی سیاست اور حکومتوں کی تشکیل کا سوال ہے، اس ملک میں صدر کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جانے کا رجحان پایا جاتا رہا ہے اور اب تک جتنی حکومتیں قائم ہوئیں، ان تمام نے آمرانہ روش اختیار کی اور من مانی فیصلے کئے اور گزشتہ چند دہوں سے سری لنکن حکومتوں کی آمرانہ و ابتدائی نوعیت و انداز کارکردگی کا دنیا بھر میں مشاہدہ کیا جارہا تھا اور حکومت اس سمت رواں دواں تھی چنانچہ آمرانہ روش اختیار کرتے ہوئے حکمرانوں نے ایسے معاشی اقدامات کئے جس نے معیشت کی بنیاد کو تباہ و برباد کرڈالا۔ ان حکومتوں نے خاص طور پر پرتعیش ایٹمس کی درآمدات کی اور خانگیانے کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی۔ سری لنکا کی معیشت گرنے کے جو پہلو ذمہ دار ہیں، ان میں متالا راجہ پکسے ایرپورٹ جیسے پراجیکٹس بھی شامل ہیں۔ اس کا بمشکل استعمال کیا جارہا ہے اور زیادہ تر خالی پڑا رہتا ہے۔ دیگر چیزوں کے علاوہ غذائی بحران شدت اختیار کرگیا اور حکومت نے کھاد (فرٹیلائزر) کی درآمد پر بناء سوچے سمجھے پابندی عائد کردی اور نامیاتی زراعت پر مکمل زور دیا جس کے نتیجہ میں غذائی پیداوار خطرناک حد تک گرگئی ، تمام واقعات حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں، آمرانہ حکمرانی کی غلط کاریوں کو منظر عام پر لاتی ہیں، کیونکہ سری لنکا میں ایک ہی فرد اور ایک ہی خاندان نے ملک اور عوام سے متعلق پالیسیاں طئے کرنے اور پروگرامس بنانے شروع کئے اور جب کبھی کوئی فرد یا کوئی خاندانی اقتدار پر فائز ہوتا ہے تو وہ اپنی مرضی کے مطابق اقدامات یا فیصلے کرنے لگتا ہے۔ سری لنکا میں ایسا لگ رہا تھا کہ ساری سیاست ایک یا دو افراد اور ان کے خاندان کے اطراف ہی گھوم رہی ہو۔ ان لوگوں نے عوام میں ایسا تاثر دینے میں کامیابی حاصل کی کہ وہ ان کے نجات دہندہ ہیں۔ ملک میں صرف ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کی اجارہ داری قائم کردی گئی ہے۔ ٹامل ہندو اور مسلم اقلیت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ میڈیا نے بھی اس معاملے میں حکمران خاندان کی بھرپور تائید و حمایت کی ہے۔ وہاں تامل ہندوؤں اور مسلمانوں پر ظلم کیا گیا، ان کی املاک تباہ و برباد کرنے کے بے شمار واقعات پیش آئے لیکن کافی عرصہ بعد سری لنکا کی آبادی کو یہ احساس ہوگیا کہ انہیں مذہب کی افیون کھلاکر ٹامل ہندوؤں اور مسلم اقلیت کے خلاف کھڑا کرکے حکمراں اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں۔ اپنے مفادات کی تکمیل کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں مہنگائی، غربت، بھوک و افلاس کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
آپ کو بتادیں کہ سری لنکا نے 1948ء میں آزادی حاصل کی، اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پہلے ہی یہ طئے کرچکی ہیں کہ وہ ہندوستانی نژاد ٹامل باشندوں کو نہ صرف حق رائے دہی سے بلکہ شہریت سے محروم کردیں گی۔ روہنی مزید کہتی ہیں کہ اس کیلئے سری لنکن سیاسی جماعتوں نے شہریت ثابت کرنے کا عمل بھی شروع کردیا جو امتیازی سلوک، تعصب و جانبداری پر مبنی تھا۔ ان سیاسی جماعتوں نے نام نہاد قوم پرستی کا دعویٰ کرتے ہوئے شدید غربت اور استحصال کا شکار ہندوستانی نژاد ورکروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سری لنکن شناخت اور سری لنکائی نسل سے ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود کو سری لنکن شہری کہنے والے سنہالی باشندوں کی اکثریت اس طرح کا ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی۔ روہنی نے اس سلسلے میں اپنے بچپن کا واقعہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 1958ء میں انہیں اپنے مقام کو چھوڑنا پڑا۔ وہ کولمبو سے قریب مقیم تھیں کیونکہ اس وقت سے مخالف ٹامل اسکواڈس سرگرم ہوچکے تھے چونکہ ان کے والد ٹامل تھے، اس لئے اپنی جانیں بچانے کیلئے انہیں اپنے گھر بار اور علاقہ کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ 1956ء میں ایس ڈبلیو آر ڈی مہندرانائیکے اقتدار میں آئے اور انہوں نے صرف اس وعدے پر اقتدار حاصل کیا کہ حکومت تشکیل دینے کے بعد صرف سنہالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے گا۔ ٹامل باشندوں نے اس وعدے کو امتیازی اور متعصبانہ تصور کرتے ہوئے ایجی ٹیشن شروع کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک انتہا پسند بدھسٹ مذہبی رہنما جو دائیں بازو کی سنہالی تنظیم سے تعلق رکھتا تھا۔ مہندرائیکے کا قتل کردیا۔ 1972ء میں سری لنکا میں ایک نیا دستور مدون کیا گیا جس میں سنہالی زبان کو ملک کی واحد سرکاری زبان بنا دیا گیا۔ ساتھ ہی دستور نے بدھ ازم کو خصوصی موقف عطا کیا اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو اس نئے دستور میں نظرانداز کردیا گیا۔ بعد میں 1972ء اور 1975ء میں شجرکاری کو قومیانے کے نام پر ٹامل باشندوں کو ان کے روزگار سے محروم کرکے بھوکے مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا اور ملک کا انتظامیہ بدھسٹ دائیں بازو کی تنظیموں کی طرف جھکتا رہا۔ اظہار خیال کی آزادی اور جمہوری حقوق کو بری طرح کچلا گیا ۔ پھر ایسا وقت بھی آیا جب سال 2005ء میں مہندا راجپکسے کو اقتدار ملا جس کے ساتھ ہی ٹامل باشندوں پر حملہ کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور قاتل اسکواڈس نے حکومت پر تنقید کرنے والوں کو نشانہ بناکر ان کی زندگیوں کا خاتمہ شروع کردیا۔ جو بھی حکومت کے خلاف منہ کھولتا، اس کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ اس ظلم و جبر کے جواب میں ٹامل یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ بنائی گئی جس نے سری لنکا کے ٹامل باشندوں کیلئے ایک آزاد ٹامل الم بنانے پر زور دیا، اس کی تشکیل میں انتہا پسند ٹامل گروپس شامل تھے، خاص کر لبریشن ٹائیگرس آف ٹامل ایلم (LTTE) کواس مقصد کے حصول کیلئے قائم کیا گیا جیسے جیسے ٹامل باشندوں کی عدم اطمینانی بڑھتی گئی LTTE دہشت گردانہ کاررائیوں پر اُتر آئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سری لنکا میں امن و امان کی حالت ابتر ہوگئی اور ٹاملوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی جس میں اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 40 ہزار شہری ہلاک ہوئے۔
اس کی دو وجوہات تھیں ایک وجہ یہ تھی کہ ایل ٹی ٹی ای نے شہریوں کو انسانی ڈھالوں کے طور پر استعمال کیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے ڈیفنس سیکریٹری (وزیر دفاع) نے سری لنکن فوج کو واضح طور پر ہدایات جاری کی کہ وہ شہری علاقوں بشمول اسپتالوں اور محفوظ علاقوں پر بمباری کریں۔ روہنی مزید لکھتی ہیں کہ راجہ پکسے نے اسلام پسند عسکریت پسندوں کو ایل ٹی ٹی ای کے خلاف لڑنے کی خاطر فنڈس فراہم کئے۔ عسکریت پسند، حکومت کے تنخواہ یاب ہوگئے تھے اور مخبری کرتے تھے لیکن بعد میں ان ہی عسکریت پسندوں نے 219 میں ایسٹر سنڈے کے دہشت گردانہ حملے کئے جس میں 260 لوگ مارے گئے۔