سری لنکا بحران ‘ فوری یکسوئی ضروری

   

تاریخ لکھوں کیسے اِس دورِ سیاست کی
راتوں کا اندھیرا ہے ہر صبح کے منظر میں
سری لنکا بحران ‘ فوری یکسوئی ضروری
پڑوسی ملک سری لنکا میں بحران نے اچانک ہی شدت اختیار کرلی ہے ۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ انہوں نے طاقتور سمجھے جانے والے راجہ پکشے خاندان کے ایک اہم رکن مہندا راجہ پکشے کو مستعفی ہونے کیلئے مجبور کردیا ۔ اب ان کے گھر کو نذر آتش کردیا گیا ۔ سابق وزیر اعظم کا خاندان ایک بحری اڈہ پر پناہ لینے پر مجبور ہوگیا ہے اور عوام نے اس بحری اڈہ کو بھی گھیر لیا ہے ۔ ملک میں کئی شہروں میںتشدد پھوٹ پڑا ہے ۔ لوگوں کی اموات کی بھی اطلاعات ہیں۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے مبینہ طور پر خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی ہے ۔ کئی مقامات پر آگ زنی پیش آئی ہے ۔ کچھ لوگوں کو نہر میں پھینک دئے جانے کی اطلاعات ہیں۔ حکومت کے مخالفین اور حامیوں کے مابین ٹکراُؤ ہونے لگا ہے ۔ سارے ملک میںبدامنی اور نراج کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور عوام اب صبر سے کام لینے کو تیار نہیں ہے ۔ سری لنکا کو گذشتہ کئی دہوں میں پہلی مرتبہ اس قدر سنگین معاشی بحران کا شکار ہونا پڑا ہے ۔ معاشی بحران کی وجہ سے سیاسی بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ اپنی مشکلات کو دیکھتے ہوئے عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ ان کا احتجاج ایسا لگتا ہے کہ اب آسانی سے ختم نہیں ہوگا ۔ جب تک حالات کو بہتر اور پرسکون بنانے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز نہیں ہوجاتا اور اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے اس وقت تک شائد عوام چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس میں حکومت بھی خود کو بے بس اورلاچار محسوس کر رہی ہے اور اس کے لئے بھی صورتحال سے نمٹا اور حالات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ صرف قرض حاصل کرتے ہوئے یا دوسرے ممالک اور عالمی اداروں سے امداد حاصل کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے میں کامیابی نہیں مل سکتی ۔ اس کیلئے ایک طویل مدتی اور دیرپا اثرات والے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ملک کی معیشت میں ترقی کی رفتار کو اضافہ کرنا ہوگا اور عوام کو روزگار کی فراہمی کیلئے بھی جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔
جہاں تک حکومت کی بات ہے تو یہ اس سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت اکثریت کے نشہ میں دھت رہی ہے ۔ اس کو عوامی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوسکا یا حکومت اس کا اندازہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھی ۔ علاوہ ازیں ملک کے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر کا تیزی کے ساتھ ختم ہوجانا بھی حکومت کے علم میں تھا ۔ اس کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی حالات پر قابو پانے کیلئے کسی کو اعتماد میں لیتے ہوئے کوئی پہل کی گئی ۔ سارے حالات سے واقفیت رکھنے کے باوجود حکومت خاموش تماشائی بنی رہی جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو سارے حالات پر کوئی تشویش لاحق نہیں ہوئی ہے ۔ اسی لا پرواہی یا پھر اقتدار کے نشہ کی وجہ سے آج ملک کے حالات انتہائی ابتر ہوگئے ہیں اور عوام بے انتہاء مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ عوام کو ادویات تک دستیاب نہیں ہو رہی ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں گذشتہ مہینوں میں دو مرتبہ سے زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے اور یہ اضافہ بھی دوگنے سے زیادہ ہے ۔ عوامی تکالیف کا ازالہ کرنے کیلئے حکومت اب بھی کچھ کرتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ حکومت اور اس کے نمائندے صرف عالمی مالیاتی فنڈ یا دوسرے اداروں سے قرض یا امداد حاصل کرنے کی کوششوں میں ہی مصروف ہیں جبکہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اس قرض کی واپسی کس طرح ممکن ہوسکے گی ۔ کس طرح سے عوام کو درپیش مشکلات کو کم کیا جائے گا ۔ اشیائے ضروریہ اور فیول کی سپلائی کو کس طرح سے بہتر بنایا جائیگا ۔
موجودہ حالات میں حکومت کو انتہائی تیزی اور سرعت کے ساتھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن کو بھی اس موقع پر سیاست کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات کو دور کرنے حکومت سے تعاون کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کی تجاویز اور منصوبے پیش کرنے ہونگے ۔ سبھی جماعتوں کو مشترکہ کاوشوں کے ذریعہ ملک کے بحران کو حل کرنے کی سمت کوشش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جتنا زیادہ وقت حالات ابتر رہیں گے اتنی زیادہ مشکلات میں اضافہ ہوگا اور ملک میں بدامنی و نراج کی کیفیت بڑھتی جائے گی ۔ یہ کیفیت ملک کو معاشی بحران سے ابھرنے کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتی ہے ۔