سری لنکا کے عوام نے بے تحاشہ معاشی مشکلات اور دیوالیہ کی صورتحال کا سامنا کرنے کے بعد اب ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے صدارتی انتخابات میں حیرت انگیز طور پر کمیونسٹ خیالات کے حامل رہنماء انورا کمارا دسانائیکے کو منتخب کرلیا ہے ۔ سری لنکا میں گذشتہ برسوں میں جس طرح کی سنگین معاشی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور ملک دیوالیہ ہوگیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ نتائج حیرت انگیز نہیں کہے جاسکتے تاہم اس اعتبار سے ضرور حیرت انگیز کہے جاسکتے ہیں کہ ملک کے عوام نے ملک کی سیاست اور حکومت پر تسلط رکھنے والے تمام بڑے ناموں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے غیر متوقع طور پر دسانائیکے کو صدارتی ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سب سے زیادہ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ دسانائیکے کو جملہ ووٹوں کا 42.3 فیصد حصہ حاصل ہوا ہے جبکہ ساجت پریماداسا کو 32.8 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس کے علاوہ سبکدوش صدر رانیل وکرما سنگے محض 17 فیصد ووٹ حاصل کرسکے ہیں۔ سابق صدر مہندا راجہ پکسا کے فرزند نمل راجہ پکسا کو صرف 2.4 فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں ۔ سری لنکا کے عوام کی یہ رائے ایک طرح سے حکمرانی اور سیاست کو اپنا موروثی حق سمجھنے اور تسلط قائم رکھنے کے خواہاں گوشوں کیلئے آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ۔ دسا نائیکے نے مارکسسٹ جے وی پی امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کیا تھا اور ان کی یہ شاندار کامیابی ملک کے علاوہ بین الاقوامی حلقوں کیلئے بھی ایک بڑی تبدیلی کہی جاسکتی ہے ۔ دسانائیکے حالانکہ مارکسسٹ نظریات کے حامل ہیں لیکن حالیہ وقتوں میں انہوں نے اپنے موقف میں معیشت کے معاملے میں قدرے نرمی کا مظاہرہ بھی کیا ہے جس سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر آگے لیجانے کی سرگرمی کے ساتھ جدوجہد کریں گے ۔ دسانائیکے کے تعلق سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ وہ اپنی سیاسی سوچ مارکسسٹ نظریات سے رکھنے کے باوجود عالمی سیاسی حقائق کو بھی بہتر انداز سے سمجھتے ہیں اور اسی کے مطابق سری لنکا کی خارجہ پالیسی کی تدوین کرنے کی کوشش کرینگے ۔ سری لنکا کیلئے عالمی سطح پر بہتر تعلقات اہمیت کے حامل ہونگے ۔
سری لنکا کے سابق حکمران ہوں یا پھر دسا نائیکے ہوں ان کی چین کی جانب رغبت بھی سب پر عیاں ہے ۔ حالیہ عرصہ میں چین نے سری لنکا میں اپنے وجود کو مزید وسعت بھی دی ہے اور اسے مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو ہندوستان نے لاکھوں بلکہ کروڑوں ڈالرس کی امداد فراہم کرتے ہوئے اپنا رول ادا کرنے کی کوشش ضرور کی ہے ۔ وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے دسا نائیکے کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے ۔ دسا نائیکے نے وزیر اعظم مودی کی نیک تمناوں پر اظہار تشکر بھی کیا ہے ۔ دسا نائیکے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہندوستان سے تعلقات کی اہمیت کو سمجھے اور دونوں ملکوں کے دیرینہ اور کلچرل تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی سمت کام کریں ۔ چین کے زیادہ اثر کو قبول کرنا ہندوستان کی رائے میں بہتر نہیں ہوگا ۔ جس طرح سے سری لنکا کے عوام نے اثر دار سیاسی طبقہ کے خلاف رائے کا اظہار کیا ہے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے دسا نائیکے کو سری لنکا کے عوام کی توقعات کو پورا کرنے کی سمت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جو حالات داخلی طور پر سری لنکا کو جھیلنے پڑے تھے وہ معمولی نہیں تھے ۔ عوام کو جس طرح سے معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ‘ غذا ‘ ادویات اور فیول جیسی بنیادی اشیا کے حصول میں بھی انہیں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ ملک دیوالیہ ہوگیا تھا اور سابق حکمرانوں کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تھا ۔ ان تمام حالات کو انہیں ذہن نشین رکھنا ہوگا ۔
داخلی حالات کو بہتر بنانے ‘ انتظامیہ پر گرفت بنانے اور معاشی نظام کو رواں دواں کرنے کے علاوہ بین الاقوامی اور علاقائی تعلقات میں توازن برقرار رکھنے پر بھی دسا نائیکے کو توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گذشتہ ایک دہے سے زیادہ عرصہ میں سری لنکا کا چین کی جانب جھکاؤ زیادہ ہوگیا ہے ۔ اس نے ملک میں کئی اہم پراجیکٹس چین کے حوالے کئے ہیں۔ ہندوستان نے بھی جہاں امداد فراہم کی ہے وہیں بھاری قرضہ جات بھی فراہم کئے ہیں۔ تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ صرف ایک جانب جھکاؤ سری لنکا یا علاقائی توازن کے مفاد میں نہیں ہوگا ۔