کولمبو۔سری لنکا کے مسلما ن اسبات پر غصہ ہیں کہ حال ہی میں کویڈ19سے فوت ہونے والے ایک بیس دن کے نومولود کی نعش کو نذر آتش کیاگیاہے۔ دی ہندو میں شائع ایک رپورٹ کے بموجب ایک38سالہ شخص این ایف ایم فہیم اور ان کی بیوی کانو مولود 8ڈسمبر کو فوت ہوگیاتھا۔
موت کے بعد انہیں مذکورہ بچے کی صورت دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ملی۔سپردگی کے متعلق حکومت کی پالیسی پر عمل کرنے کے بعد نومولود کوغیرمسلم رسومات کے تحت والدین سے پوچھے بغیر نذرآتش کردیاگیاہے۔
نذر آتش کرنے کو لازمی قراردینے کی مذمت کرتے ہوئے فہیم نے کہاکہ یہ ان کے مذہبی عقائد کے عین خلاف ہے۔
نذر آتش کرنے کا لازمی لزوم
اپریل2020میں مذکورہ سرلنکائی حکومت نے کویڈ19سے مرنے والے لوگوں کی نعشوں کو نذر آتش کرنا لازمی کردیاہے۔مذکورہ حکومت کا دعوی ہے کہ کویڈ19کے مریضوں کو تدفین سے زیر زمین پانی میں آلودگی پیدا ہوجائیگی۔
اس کے علاوہ کویڈ19متاثرین کے گھر والوں نعشوں کو جلانے کے لئے 270-325امریکی ڈالر زبردستی لئے جارہے ہیں
نعش کو لازمی نذر آتش کرنے کے خلاف احتجاج
نعشو ں کو لازمی طو ر پرنذر آتش کرنے والے احکامات کے خلاف کچھ خاندانوں نے اس کیااخراجات برداشت نہیں کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
یہاں تک کہ وہ استھیاں نہیں لینے کابھی فیصلہ کیاہے۔ مختلف گروپس بشمول وزیر برائے انصاف علی صابری پی سی کے دباؤ کے سبب حکومت نے 4نومبر کے روز ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو نعشوں کو نذر آتش کرنے کے لزوم کے معاملے کی پالیسی کو دیکھیں۔
تاہم 22نومبرکے روز مذکورہ کمیٹی نے کوئی وجہہ بتائے بغیراس پالیسی کو منظوری دیدی۔یہاں تک حکومت کی پالیسی کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو سری لنکا ہائی کورٹ نے 1ڈسمبر کے روز مسترد کردیاہے۔