سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے بچوں کے لیے معیاری تعلیم

   

قیام تلنگانہ کے بعد 731 اقامتی اسکولس کا قیام ، اسمبلی میں وزیر کے ایشور کا بیان
حیدرآباد۔4۔اگسٹ۔(سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت نے گذشتہ 8 برسوں کے دوران مختلف طبقات کے لئے قائم کئے گئے اقامتی اسکولس پر جملہ 13ہزار 528کروڑ 6لاکھ روپئے خرچ کئے گئے ہیں۔ وزیر بہبود مسٹر کوپلہ ایشور نے ایوان اسمبلی میں وقفہ صفر کے دوران اٹھائے گئے مسئلہ پر جواب دیتے ہوئے یہ بات کہی اور بتایا کہ حکومت نے اقامتی اسکولوں کے قیام کے ذریعہ سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے بچوں کے لئے معیاری تعلیم کا انتظام کیا ہے۔مسٹر کوپلہ ایشور نے بتایا کہ قیام تلنگانہ کے بعد ریاست بھر میں 731 نئے اقامتی اسکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں اسکولس کے علاوہ جونئیر کالجس قائم کئے گئے ہیں۔ریاست میں 204 اقلیتی تعلیمی ادارے قائم ہیں جن میں قیام تلنگانہ سے قبل 12 اقامتی اسکولس ہوا کرتے تھے اور قیام تلنگانہ کے بعد 192 تعلیمی ادارہ جات کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اسی طرح سوشل ویلفیر کے تحت قیام تلنگانہ سے قبل 134 اقامتی اسکول موجود تھے اور قیام تلنگانہ کے بعد مزید 134اسکول کے قیام کے ذریعہ ان کی تعداد کو دوگنا کردیا گیا ہے اور اب یہ تعداد 268کو پہنچ چکی ہے۔ قبائیلی طبقات کے لئے قیام تلنگانہ سے قبل 91اسکول چلائے جاتے تھے اور قیام تلنگانہ کے بعد ان اسکولوں میں 97 اسکولوں کا اضافہ عمل میں لایا گیا ہے جو کہ 188 ہو چکے ہیں۔ بی سی ویلفیر کے ذریعہ ریاست بھر میں 327اسکول چلائے جا رہے ہیں جن میں 308 اسکولوں کا قیام تلنگانہ کی تشکیل کے بعد عمل میں لایا گیا ہے۔جبکہ متحدہ آندھراپردیش میں ان کی تعداد 19تھی۔ ریاستی حکومت کی جانب سے چلائے جارہے جملہ 1022 اقامتی اسکولوں میں 731اسکول قیام تلنگانہ کے بعد قائم کئے گئے ہیں ۔ ریاستی وزیر کے جواب پر ذیلی سوالات کرتے ہوئے جناب اکبر الدین اویسی نے استفسار کیا کہ ریاست میں اقلیتی اقامتی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیںان کے نتائج کے علاوہ ٹمریز کی ذاتی عمارتوں کی تفصیل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور استفسار کیا کہ ٹمریز کو ذاتی عمارتوں کی تعمیر کے لئے کتنی اراضی فراہم کی گئی ہیں اور کہا ں کہاں اراضیات کی تخصیص عمل میں لائی گئی !انہوں نے اقامتی اسکولوں کے طلبہ کے مسابقتی امتحانات میں کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تفصیلات بھی ایوان میں پیش کی جانی چاہئے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ان سرکاری اقامتی اسکولوں میں کتنے طلبہ نے مسابقتی امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے۔