سعودیہ ۔چین تعلقات،خطہ کی بدلتی صورتحال کا ایک اور اشارہ

   

ریاض: سعودی سرکاری میڈیا نے چہارشنبہ کو رپورٹ کیا کہ سعودی عرب نے شنگھائی تعاون تنظیم میں ’’ڈائیلاگ پارٹنر‘‘ کے طور پر شامل ہونے پررضامندی ظاہر کی ہے، جو چین کے ساتھ مزید قریبی سیاسی تعلقات کا تازہ ترین اشارہ ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم 2001 میں ایک سیاسی، اقتصادی اورسیکیورٹی تنظیم کے طور پر مغربی اداروں کا مقابلہ کرنے کیلئے قائم کی گئی تھی۔چین کے علاوہ اس کے آٹھ ارکان میں ہندوستان، پاکستان اورروس کے علاوہ چاروسطی ایشیائی ممالک قازقستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان شامل ہیں۔ سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، سعودی کابینہ نے منگل کو شاہ سلمان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اس فیصلے کی منظوری دی۔ ایجنسی کے مطابق اس اقدام سے ریاض کو شنگھائی تعاون تنظیم میں ایک ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ ملے گا۔ مبصریا ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ رکھنے والے دیگر ممالک میں مصر،ایران اورقطرشامل ہیں۔بلاک کے ساتھ شراکت داری کیلئے ریاض کا یہ اقدام ایران کے ساتھ چین کی ثالثی میں طے پانے والے ایک تاریخی مفاہمتی معاہدے کے بعد، تین ہفتوں سے بھی کم وقت کے بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت سات سال قبل منقطع ہونے والے سفارتی تعلقات بحال کئے گئے ہیں۔ طویل عرصے سے حریف شیعہ اکثریتی ایران اوربنیادی طو پرسنی سعودی عرب کے درمیان تعلقات تلخ رہے ہیں اور یہ خطے میں پراکسی تنازعات میں الجھے رہے ہیں، جیسے کہ یمن کی خانہ جنگی میں دونوں ملکوں کا ملوث ہونا۔ریاض نے کہا ہیکہ جب وہ تہران کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کے پچھلے دورمیں مصروف تھا،اسی دوران چین کے صدر ژی جن پنگ کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش سیاس عمل کو مہمیز ملی۔سعودی عرب کی واشنگٹن کے ساتھ روایتی طورپرقریبی شراکت داری کودیکھتے ہوئے چین کے کردار نے سب کو حیرت زدہ کر دیا۔
حالانکہ حالیہ کچھ عرصے میں امریکہ اورسعودی عرب کے درمیان انسانی حقوق اورتیل کی پیداوارکی وجہ سے یہ تعلق تناؤ کا شکاررہا۔واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے سعودی عرب کے اس اقدام کے اثرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی طویل عرصے سے توقع کی جا رہی تھی، ’’ہر ملک کے تعلقات کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں‘‘۔