سعودی تیل تنصیبات پر حملہ ۔ ہندوستانی معیشت پر اثر

   

کشمیر میں تحدیدات ۔ صورتحال ایمرجنسی سے بدتر
فاروق عبداللہ کی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری ،خطرناک رجحان

رویش کمار
آپ تمام کا بے حد شکریہ! اگر آسمان کی شروعات زمین سے ہوتی ہے تو میں زمین پر آچکا ہوں۔ اور اب اپنا کام شروع کرچکا ہوں۔ قائدین کی زبان پر جنگ روزانہ کا معمول بن چکی ہے، لیکن دنیا میں پیش آنے والے واقعات بھی جنگ کا ماحول تیار کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ڈرون حملے کئے گئے ہیں۔ آٹھ روز قبل دو دھماکے پیش آئے جن کے باعث سعودی عرب میں تیل کی پیداوار گھٹ گئی ہے۔ دنیا میں تیل کی پیداوار ہر روز پانچ فیصد کم ہوئی ہے۔ Aqac کی دنیا میں سب سے بڑی آئیل ماڈیفکیشن فیکٹری ہے۔ آئیل مائن پر بھی حملہ کیا گیا۔ یہ دونوں سعودی عرب کی آئیل کمپنی Aramco کا حصہ ہیں۔ اس حملے کے سبب تیل کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئی ہیں۔ حملے کے دو روز میں ہی خام تیل کی قیمت میں 20 فیصد اضافہ ہوگیا۔ 60 ڈالر فی بیارل سے $72 فی بیارل ہوگئی۔ 1980ء سے پہلی مرتبہ ایک روز میں تیل کی قیمتوں میں اس قدر اچھال ہوا ہے۔

اس سے قبل امریکہ کے صدر ٹرمپ کے بیان نے ہلچل پیدا کی کہ اُن کا ملک تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے گا، جس کے بعد تیل کی قیمتوں میں کچھ بہتری آئی۔ $72 سے $66 فی بیارل ہوگئیں۔ اگر آپ گزشتہ ایک ہفتہ قبل کی قیمت لحاظ سے بھی حساب کریں تو 10 فیصد کا اضافہ ہوا، جو دو ماہ میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ حملے کے پس پردہ ایران کارفرما ہے۔ ایران نے تردید کردی ہے۔ البتہ ایران ہی کی تائید و حمایت والے یمن کے حوثی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ سعودی عرب اور یمن جنگ کی حالت میں ہیں۔ امریکہ حملے میں یمن کا رول قبول کرنے تیار نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب سے تیل کی سربراہی چھ ہفتوں تک بدستور یونہی رہی تو خام تیل کی قیمت $75 فی بیارل تک جاسکتی ہے۔ اس کے سبب معاشی سست روی ختم ہونے کا امکان موہوم ہوتا جائے گا۔

امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کے سبب معیشت کی یہ صورتحال ہوچکی ہے۔ تیل کے اداروں کو کافی محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک ان کی بڑی حفاظت کرتا ہے، لیکن اس حملے کے بعد سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اب وہ محفوظ نہیں رہے ہیں۔ آرامکو کے پلانٹس یمن کی سرحد سے 1800 کیلومیٹر پر واقع ہیں، پھر بھی ان پر حملہ کیا گیا ہے۔ تادم تحریر 58 فیصد پیداوار متاثر ہوچکی۔ اس مرحلے پر یہ دنیا کا بڑا واقعہ ہے۔ یہی امید ہے کہ صورتحال جنگ تک نہیں پہنچے گی۔
ہندوستان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے آئیل ماڈیفکیشن کامپلکس پر حملہ اسے متاثر نہیں کرے گا۔ آپ جانتے ہوں گے کہ انڈیا دنیا میں خام تیل کا تیسرا بڑا کنزیومر ہے۔ 80 فیصد انحصار درآمدات پر ہے۔ سعودی عرب انڈیا کا خام تیل اور ایل پی جی کا دوسرا بڑا سپلائر ہے۔ ایران پر امریکی پابندی کے باوجود ہندوستان پُراعتماد ہے کہ سعودی سپلائیز پر حملے سے اس کے پاس انتظام و انصرام درست رہے گا۔ امید ہے ہندوستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔
n کیا جموں و کشمیر میں سکیورٹی تحدیدات اس قدر سخت ہیں کہ وہاں انصاف کیلئے ہائیکورٹ تک رسائی مشکل ہوگئی ہے۔ نیشنل چلڈرنس کمیشن کی پہلی چیئرپرسن شانتا سنہا اور بچوں کے حقوق کی جہدکار اَناکشی گنگولی کی پٹیشن کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ اس عرضی میں انڈین اکسپریس، ٹیلی گراف، کاروان، واشنگٹن پوسٹ میں شائع رپورٹس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ انڈین اکسپریس مورخہ 8 اگست کی رپورٹ ہے کہ 17 سالہ لڑکا کرکٹ کھیل رہا تھا جب اس کا تعاقب سی آر پی ایف جوانوں نے کیا، وہ دریا میں گرگیا اور ڈوب کر فوت ہوگیا۔ 9 اگست کو واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سارن میں رات میں دھاوے کرتے ہوئے اسکولی بچوں کو پکڑا جانے لگا ہے۔ ایک جگہ پولیس نے باپ کو پکڑلیا اور اس کی رہائی کیلئے شرط رکھی کہ اس کے بیٹے کو لایا جائے۔ ٹیلی گراف مورخہ 14 اگست کی خبر ہے کہ پمپور میں 11 سالہ لڑکے کو چھ روز کسی سرکاری اندراج کے بغیر محروس رکھا گیا۔ جب وہ باہر آیا تو بتایا کہ اُس سے کم عمر بچے تک جیل میں ہیں۔ اس طرح کی کئی مثالیں پٹیشن میں دی گئی ہیں۔ اس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں عرضی گزار جموں اینڈ کشمیر ہائیکورٹ کو نہیں جاپارہے ہیں۔ اس پر کہا گیا کہ سکیورٹی تحدیدات کے سبب ہائیکورٹ تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس پر چیف جسٹس برہم ہوئے اور کہا کہ یہ سنگین معاملہ ہے۔ ہم چیف جسٹس ہائیکورٹ سے بات کریں گے، رپورٹ طلب کریں گے اور اگر ضرورت پڑے تو ہم خود جموں اینڈ کشمیر ہائیکورٹ جائیں گے۔ انھوں نے وکیل برائے جہدکار حقوق اطفال حذیفی احمدی کو متنبہ کیا کہ اگر ان کی بات درست نہ ہوئی تو وہ نتائج کیلئے تیار رہیں۔

جموں و کشمیر سے متعلق مختلف کیسوں کی سماعت سپریم کورٹ میں ہورہی ہے۔ یہ سب چیف جسٹس کی بنچ پر جاری ہیں۔ ایڈیٹر کشمیر ٹائمز انورادھا بھاسین نے کہا کہ انٹرنٹ اور مواصلاتی ذرائع 43 دنوں سے معطل ہیں۔ تب حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کہا کہ اخبارات جموں اور سرینگر سے شائع ہورہے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیوں کمیونکیشن سسٹم نہیں چل رہا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا پرسنس کمیونکیشن سسٹم استعمال کررہے ہیں۔ انھیں دور دراز کے علاقے تک جانے کی اجازت ہے۔ مرکز کی جانب سے استدلال پیش کیا گیا کہ آیا سنگباری کرنے والوں کی مدد کی جارہی ہے؟ اس پر عرضی گزار نے کہا کہ سرینگر میں موبائل فون بند ہے۔ انٹرنٹ مفلوج ہے۔ اسے شروع کرنا چاہئے۔ انڈین جرنلسٹس یونین بھی انورادھا کی پٹیشن سے خود کو جوڑنے کی خواہاں ہے۔ انورادھا کے وکیل ورندا گروور نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کس قانون کے تحت انفرمیشن سسٹم موقوف کردیا گیا ہے۔ ایمرجنسی بھی پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کرنی پڑتی ہے، ورنہ وہ 30 یوم میں بے اثر ہوجاتی ہے۔ اس معاملے میں زائد از 40 یوم ہوچکے ہیں۔
فاروق عبداللہ، سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر پر پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی کشمیری کو کسی سماعت یا ٹرائل کے بغیر دو سال تک تحویل میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ اقدام اُس روز سے عین قبل رات میں کیا گیا جب غیرقانونی محروسی کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہونے والی تھی۔ راجیہ سبھا ایم پی وائیکو نے ایک پٹیشن داخل کرتے ہوئے فاروق عبداللہ کی رہائی کیلئے استدعا کی تھی تاکہ وہ چینائی میں ایک تقریب میں شرکت کرسکیں۔اس پر سپریم کورٹ نے مرکز اور جموں و کشمیر کو ایک نوٹس بھیجی تھی۔ 81 سالہ فاروق عبداللہ پر امن عامہ میں رخنہ ڈالنے کا الزام ہے۔ ابھی تک وہ گھر پر نظربند تھے، جسے اب جیل قرار دیا گیا ہے۔ سینکڑوں دیگر قائدین بشمول فاروق عبداللہ کے فرزند عمر عبداللہ گھر پر نظربند یا تحویل میں ہیں۔
6 اگست کو سپریہ سولے نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ فاروق عبداللہ گھر پر نہیں ہیں، تب امیت شاہ نے جواب دیا تھا کہ انھیں نہ گرفتار کیا گیا اور نا تحویل میں رکھا گیا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے گھر پر ہیں۔ اصل دھارے کے کسی سیاستدان کے خلاف پہلی مرتبہ پبلک سیفٹی ایکٹ کو لاگو کیا گیا ہے، جبکہ وہ تین مرتبہ کے سابق چیف منسٹر اور موجودہ ایم پی ہیں۔ عام طور پر اس قانون کو دہشت گردوں یا علحدگی پسندوں یا پتھراؤ کرنے والوں پر لاگو کیا جاتا ہے۔ ٭
ravish@ndtv.com