سعودی ۔ ایران تعلقات کا احیاء

   

سراپا ہم تو پیکر بن گئے ہیں پیار کا لیکن
ہمارا دل دُکھانے کوئی بہتان لے کے اٹھتا ہے
سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات کا احیاء عمل میں آنے والا ہے ۔ دونوںملکوںکے تعلقات حالیہ عرصہ میں اچھے نہیں رہے تھے ۔ ان میںکشیدگی پیدا ہوگئی تھی ۔ راست اور بالواسطہ طور پر ایک دوسرے کے خلاف موقف اختیار کیا جا رہا تھا ۔ دونوںملکوںکے اختلافات کا سارے علاقہ کی صورتحال پر بھی اثر ہو رہا تھا ۔ کچھ گوشوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا تھا کہ دونوںہی ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ تعلقات کو پہلے استوار کرنے او رپھر انہیںمستحکم کرنے کیلئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں ہی ممالک کی علاقہ میں اپنی اپنی حیثیت مسلمہ ہے اور اگر ان میں اختلافات پائے جاتے ہیں تو اس سے علاقہ کی صورتحال پر اثرات مرتب ہونا لازمی امر تھا ۔ اگر یہ تعلقات بحال ہوجاتے ہیں اور ان میں بہتری کی سمت پیشرفت ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں علاقہ کی صورتحال بھی مثبت تبدیلی کی سمت گامزن ہوسکتی ہے ۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان وسیع تر نظریاتی اختلافات ہیں۔ ان کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ تاہم جن مسائل پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے ان کی بنیاد پر تعلقات کو استوار کرتے ہوئے اختلافی مسائل پر سنجیدگی سے بات چیت کی جاسکتی ہے اور حالات کو بہتر بنانے کی سمت کوشش کی جاسکتی ہے ۔ دونوںملکوںکے مابین سفارتی تعلقات منقطع تھے اور بات چیت کے راستے بھی بند تھے ۔ تاہم چین نے دونوںملکوںکے مابین مصالحتی رول ادا کرتے ہوئے انہیں بات چیت کا موقع فراہم کیا ۔ خود بات چیت کی میزبانی کی اور دونوںملکوںکے ارباب مجاز کے مابین چین کے دارالحکومت بیجنگ میں بات چیت ہوئی اور کہا یہ جا رہا ہے کہ دونوں ہی ملکوں نے سفارتی تعلقات بحال کرنے ‘ سفارتخانے دوبارہ کھولنے اور سفارتی عملہ کی تعیناتی سے اتفاق بھی کرلیا ہے ۔ سفارتی تعلقات کی بحالی اندرون دو ماہ کرلینے سے دونوں ممالک نے اتفاق کرلیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ علاقہ کیلئے دونوںملکوں کے مابین اختلافات کی یکسوئی سے اتفاق انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ اس میں چین نے مصالحتی رول ادا کیا ہے ۔ شائد یہ پہلا موقع ہے جب امریکہ کی بجائے چین نے علاقہ میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین بیجنگ میں جو معاہدہ اس میں سکیوریٹی معاہدہ اور تجارت کو بحال کرنے سے بھی اتفاق کیا گیا ہے ۔ دونوں ہی باتیں اہمیت کی حامل ہیں اور اس سے علاقہ کی صورتحال کو مستحکم بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ یہ امکانات بھی پیدا ہوگئے ہیں کہ اس معاہدہ کے ذریعہ یمن کی جنگ کو ختم کرنے کی سمت بھی پیشرفت ہوسکتی ہے ۔ یمن جنگ کے معاملے میں بھی سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے مد مقابل دکھائی دے رہے تھے ۔ حالانکہ دونوںکا ہی رول بالواسطہ رہا ہے لیکن یہ سبھی جانتے ہیں کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مخالفت میں اس جنگ کا بالواسطہ حصہ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ کہا جا رہا تھا کہ امریکہ کی کوشش سے یمن کی جنگ کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے یا اسے ختم کروایا جاسکتا ہے ۔یمن میں ماضی میں جنگ بندی بھی ہوئی تھی لیکن جنگ کو ختم کرنے کی سمت کوئی پیشرفت نہیںہوسکی تھی ۔ بیجنگ نے علاقہ کے دو اہم ممالک کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں جو رول ادا کیا ہے وہ سارے علاقہ کیلئے اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ بتدریج اس علاقہ میں اپنے حلقہ اثر کو سمیٹنے کی کوشش کرسکتا ہے اس لئے بھی سعودی عرب نے چین کی کوششوں کو قبول کرتے ہوئے بات چیت سے اتفاق کیا اور بالآخر دونوں ممالک کے مابین ایک معاہدہ ہوگیا ہے ۔ اس معاہدہ کے تحت حالات کو بہتر بنانے کیلئے جو اقدامات کئے جائیں گے وہ بھی علاقہ کی صورتحال پر اثر انداز ہونے میں اہمیت کے حامل ہونگے ۔ جہاں تک سعودی عرب کا سوال ہے اس کا اس معاہدہ سے اتفاق کرنا بھی بہت زیادہ اہم ہی ہے ۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین جونظریاتی اور مسلکی اختلافات ہیں ان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہی دونوںملکوںکے مابین اختلافات کی بنیادی وجہ بھی رہے ہیں۔ اب دونوں ملکوں کے مابین جو معاہدہ ہوا ہے اس میں حالانکہ اس مسئلہ کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے اور صرف سکیوریٹی اور تجارتی اور کلچرل پہلووں پر توجہ دی گئی ہے لیکن یہ امکانات بھی پیدا ہوگئے ہیں کہ دونوںممالک کی جانب سے یمن اور شام میں جنگ ختم کروانے پر بات چیت ہوسکتی ہے اور اگر یہ بات چیت کامیاب رہی تو پھر انسانیت کی تباہی کی وجہ بننے والی ان جنگوںکو بھی روکا جاسکتا ہے ۔ بحیثیت مجموعی ایران ۔ سعودی تعلقات کا احیاء خوش آئند کہا جاسکتا ہے ۔
یدیورپا سے بی جے پی کی دوری ؟
کرناٹک میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ریاست میں برسر اقتدار بی جے پی کی جانب سے انتخابی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ جو سروے اور اوپینین پول اب تک سامنے آئے ہیں ان میں بی جے پی کیلئے اقتدار بچانا مشکل کہا جا رہا ہے ۔ پارٹی نے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی کوششیں شروع کردی ہیں۔ داخلی سطح پر بھی پارٹی توجہ دے رہی ہے اور سابق چیف منسٹر یدیورپا سے عملا دوری کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ یدیورپا آج بھی کرناٹک میں بی جے پی کے سب قد آور لیڈر ہیں۔ انتخابی سیاست سے دوری کے باوجود سیاسی میدان میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم پارٹی میں داخلی مسائل کو ختم کرنے اور یہ پیام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پارٹی اور پارٹی کی قیادت چیف منسٹر بومائی کے ساتھ ہے ۔حالانکہ یدیورپا سے دوری کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے اور ان کو بھی مطمئن رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ کوششیں دکھاوے کیلئے ہیں اور پارٹی چیف منسٹر بومائی کی حیثیت کو مستحکم کرنے میں بھی جٹ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی انتخابی مہم کی نگرانی یدیورپا کی بجائے چیف منسٹر بومائی کو سونپی گئی ہے ۔ اسی طرح اور بھی فیصلے کئے گئے ہیں۔ ایسے میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی یدیورپا سے عملا دوری اختیار کرنے لگی ہے اور اس کے اثرات انتخابی نتائج پر کیا مرتب ہونگے یہ نتائج ہی سے پتہ چلے گا۔