سلام اور مصافحہ کا اسلامی طریقہ

   

 حضرت سید فہیم بابا حسینی رضوی  ؒ

فرمان الٰہی ہے : ’’اور جب تم کو کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہدو بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے‘‘۔ ( پارہ ۵رکوع ۸۔ترجمہ کنز الایمان ) ۔ انسانیت اور تہذیب و تمدن کے تحت کوئی بھی دو سنجیدہ انسان آپس میں اُن کی ملاقات ہوتی ہے تو ضرور وہ ایک دوسرے کو تحیت اور سلامی دیتے ہیں اور خیرخیریت دریافت کرتے ہیں۔ چاہے وہ کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ چنانچہ اسلام میں بھی یہ طریقہ رائج ہے کہ اسلام نے تحیت کا اتنا اچھا طریقہ بتایا ہے کہ کسی بھی تہذیب و تمدن میں ایسا نہیں ہے اسی تحیت کا نام سلام ہے۔ سلام اور ہاتھ ملا کر اظہار خوشی کا نام مصافحہ ہے۔ لیکن اسلامی سلام وہی ہے جو حسب ہدایت کیا جائے۔
سلام کے مسائل: سلام کرنا سنت ہے، جواب دینا فرض ہے اور جواب میں افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے سلام پر کچھ بڑھا کر بولیں ۔ السلام علیکم بولنے سے دس نیکی السلام علیکم ورحمۃ اللہ بولنے سے بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بولنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ اور جواب اُسی طرح کا ہو تو بھی تیس نیکیاں ملتی ہیں مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جن کو سلام کا صحیح طریقہ تک نہیں معلوم ہے۔ وہ یوں سلام کرتے ہیں۔ ’’سام علیکم‘‘ اس کا معنی ہے تم جلدی مرجاؤ، پتہ نہیں جلدی مرنے کے دعا کیوں کرتے ہیں۔ جب سلام کر و سلامتی میں رہو گے سلام کو پھیلاؤ۔ یہ ’’سام علیکم‘‘ کہنا اسلامی طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ منافقین اسلام کا طریقہ ہے ، مسلمان ایسا سلام کرنے سے بچیں۔ کافر، گمراہ، فاسق معلن کو سلام کی ابتدا نہ کریں۔ یا تلاوت میں مصروف یا مذاکرہ علم دین یا اذان یا تکبیر میں مشغول ہو۔ یا پھر گانے بجانے میں مشغول ہو یا غسل خانے میں موجود ہوان کو سلام نہیں کرنا چاہیے ۔ بہتر سواری والا کمتر سواری والے کو کمتر سواری والا پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور چھوٹے بڑوں کو اورتھوڑے لوگ زیادہ کو سلام کریں۔ (تفسیر العرفان ) 
مصافحہ کا اسلامی طریقہ سلام کے بعد مصافحہ کرنا چاہیے : مصافحہ میں کسی نئی نئی تراش خراش والے طریقے بنائے ہیں۔ حالاں کہ وہ صحیح و شرعی اسلامی طریقہ نہیں۔ اور کچھ لوگ مصافحہ کرنے کو بدعت اور گمراہی کا سبب بتاتے ہیں یہاں ہم مصافحہ کے فضائل و مسائل بتائے دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے: حضرت براء ابن عازب سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ جب دو مسلمان مل کر مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ہی اُن کی مغفرت ہو جاتی ہے ۔ ( ترمذی شریف، ابن ماجہ شریف ) 
امام ابو داؤد کی روایت میں یوں ہے کہ جب مسلمان ملیں اور مصافحہ کریں اور اللہ کی حمد کریں اور استغفار کریں تو دونوں کی مغفرت ہو جائیگی۔ حضرت امام مالک نے بھی روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آپس میں مصافحہ کرو کہ دل کی کپٹ جاتے رہی گی ۔ دشمنی عداوت دور ہوگی۔ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جومسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے مصافحہ کرے اور کسی کے دل میں دوسرے کی عداوت نہ ہو تو ہاتھ جدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ دونوں کے گذشتہ گناہوں کو بخش دے گا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا دست مبارک ان کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا یعنی ہر ایک ہاتھ دوسرے کے دونوں ہاتھوں کے درمیان میں ہوتا۔
مصافحہ کا دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ بعض فقہائے کرام نے بیان فرمایا اور یہ طریقہ بھی مسنون ہے وہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے دوسرے کے دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ سے دوسرے کے بائیں ہاتھ سے ملائے اور انگوٹھے کو دبائے ۔ انگوٹھے میں ایک ایسی رگ ہے جس کے پکڑنے سے اور دبانے سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے ۔ ایک ہاتھ سے مصافحہ خلافِ سنت ہے ۔ یا اللہ ہم سب کی مغفرت فرما ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما۔ اعمال صالحہ پر ہم کو عمل کی توفیق رفیق عطا فرما۔ دنیوی اخروی مصیبتوں سے بچا۔ آمین ثم آمین۔