سلام اُس پر کہجس نے زخم کھاکر پھول برسایا

   

انسان کی زندگی خوشی، غم، دُکھ، درد، فرحت و انبساط کا امتزاج ہے۔ حالات ہر وقت یکساں نہیں رہتے، انسان کبھی خوش رہتا ہے اور کبھی غیظ و غضب میں ہوتا ہے۔ باہمی ربط و ارتباط میں کبھی اونچ نیچ ہوجاتی ہے۔ عیش و طیش دونوں صورتوں میں یاد الٰہی اور خوف خداوندی کو ملحوظ رکھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے اور بالعموم آزمائش کی گھڑیوں میں انسان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور صبر و اخلاق کے کٹھن امتحان میں وہ بسا اوقات ناکامی کا شکار ہوجاتا ہے۔ خوشگوار حالات میں تعلقات کو استوار و بحال رکھنا دشوار نہیں ہوتا لیکن ناسازگار صورتحال میں اپنے نفس پر قابو پانا، عقل و ہوش کو بے قابو ہونے نہ دینا ہی کمال ہے۔ انسان صبر و تحمل، اخلاق و کردار کے مختلف امتحانات سے گزرتا ہے۔ کبھی کامیاب ہوتا ہے تو کبھی ناکام ہوجاتا ہے لیکن جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ ﷺکے احوال میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن کو پڑھنے سے ہمارے دلوں میں طاقت و قوت پیدا ہوتی ہے اور ثبات و استقامت میں مدد ملتی ہے۔
نبی اکرم ﷺکی زندگی میں جس چیز نے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور آپ کا گرویدہ و جانثار بنایا وہ آپ ﷺ کا حسن خلق اور بے مثال طرز معاشرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس اللہ کی مہربانی سے آپ ان لوگوں کے لئے نرم ہوگئے اور اگر آپ ترش رو سخت دل ہوتے تو سب لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔
(سورۃ ال عمران ؍ ۱۵۹)
ایک قبیلہ مسلمان ہوتے ہی قحط سالی کا شکار ہوگیا، اتفاق سے اس وقت ’’بیت المال‘‘ بھی خالی تھا، وسائل کی کمی کے پیش نظر آپ ﷺ نے یہودی زید بن سعید سے اسّی دینار قرض لے کر انہیں خوراک فراہم کی ،ابھی اس کی ادائیگی کا وقت نہیں آیا تھا کہ زید آپ کی خدمت میں پہنچا اور نہایت کرختگی سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اور کہا : اے بنوعبدالمطلب بخدا تم بڑے نادھند ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس کی گستاخی پر جلال میں آئے اور اس کا سر قلم کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ ﷺ نے فرمایا : اے عمر ! تمہیں چاہئے تھا کہ مجھے حسنِ ادا کی تلقین کرتے اور اسے حسن طلب کی۔ پھر نہ صرف اس کے قرض کی فوری واپسی کا حکم دیا بلکہ بیس صاع (تقریباً دو من) سے زیادہ کھجوریں دینے کا حکم دیا۔ اس حسن سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔ (شرح شفاء)
لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے میں آپ ﷺ کا عمل ہمیشہ عفو و بردباری رہا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ آپؐ نے تمام زندگی اپنے اوپر کی گئی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا سوائے اس صورت کے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی حرمت پامال کی گئی ہو تو اس وقت آپ ؐسختی سے مواخذہ فرماتے۔ (بخاری کتاب المناقب)
ایک مرتبہ ایک بدّو آیا اور پیچھے سے آپ ﷺکی چادر پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ گردنِ مبارک پر نشان پڑ گیا۔ آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے نہایت سختی سے کہا ’’میرے اونٹوں پر کچھ لاد دو کیونکہ یہ نہ تو اپنے مال سے لادیگا اور نہ ہی اپنے والد کے مال سے‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اور تین مرتبہ ’’استغفراللہ‘‘ کہا۔ پھر آپ ﷺ نے نہ صرف اُسے معاف کردیا بلکہ اس کے اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجوریں لادنے کا حکم دیا (ابوداؤد)
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے اس سے پوچھا ، تجھے کس چیز نے اس گستاخی پر اُبھارا؟ اُس نے فوراً جواب دیا ’’آپ کے حلم و بردباری نے‘‘۔
آپ ﷺکا ارشاد عالی ہے طاقتور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے۔ (بخاری کتاب الادب)
آپ ﷺنے فرمایا : اخلاق کی بلندی یہ نہیں کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ بُرائی کرو جو تمہارے ساتھ بُرائی کرے بلکہ اخلاق تو یہ ہے کہ ہر اس شخص سے نیک سلوک کرو خواہ وہ تمہارے ساتھ بُرائی سے پیش آئے یا تم سے زیادتی کرے۔
آپ ﷺکی سیرت طیبہ میں دوسروں سے اپنے حقوق کا تقاضا کرنے اور ان پر اصرار کرنے کے بجائے دوسروں کو ان کے حقوق دینے کا اُصول کارفرما تھا۔ قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ اسی طرز معاشرت پر روشنی ڈالتی ہے۔ ارشاد ہے: یعنی بھلائی اور بُرائی برابر نہیں ہوسکتی۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا (سخت کلامی کا) ایسے طریقے سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس شخص میں اور تم میں دشمنی تھی وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔
ایک بدوی نے ایک مرتبہ مسجد نبوی میں پیشاب کردیا۔ صحابہ کرام اس کی طرف دوڑے مگر آپ ﷺنے انھیں روکا اپنی حاجت سے فارغ ہونے دیا۔ پھر آپ ﷺ نے اس جگہ کو دھونے کا حکم دیا اور اسے نرمی سے سمجھادیا۔ (ابوداؤد)آپ ﷺ کے خدام سے غلطیاں ہوجاتیں مگر آپ ﷺانہیں معاف فرمادیتے۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے : میرے سامنے دوسروں کی ایسی باتیں نہ کہا کرو جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدورت پیدا ہوجائے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں سب سے صاف دل (سلیم الصدر) کے ساتھ ملوں۔ (ابوداؤد)
یہ سیرت نبوی کے ایسے روشن واقعات ہیں جو ہماری زندگی کے مختلف موڑ پر رہنمائی کرتی ہیں اور بطور خاص عفو، درگزر حلم و بردباری، صبر و تحمل کی تلقین کرتی ہیں۔