سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹادودو ریاستوں میں اسمبلی انتخابات

   

ملک میں ایک بار پھر انتخابی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ہریانہ اورمہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور ان کے ساتھ ملک کی مختلف ریاستوں کے 64 اسمبلی حلقوں کیلئے بھی 21 اکٹوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے بعد انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوگیا ہے ۔ یہ انتخابات اپوزیشن اور برسر اقتدار بی جے پی دونوں کیلئے اہم ہیں۔ حالانکہ بی جے پی کا موقف اس بار بھی مستحکم دکھائی دیتا ہے اور یہ اندیشے زیادہ نہیں ہیں کہ بی جے پی کو انتخابات میں عوام کی برہمی کا سامنا کرنا پڑیگا تاہم کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعت جو مہاراشٹرا میں انتخابات میں اہمیت کی حامل ہے این سی پی ‘ دونوں کیلئے یہ انتخابات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان جماعتوں کیلئے اپنی سیاسی بقا کا راستہ طئے کرنے میں یہ انتخابات بہت زیادہ اہم رول نبھائیں گے ۔ہریانہ میں کانگریس کو تنہا مقابلہ کرنا ہے اور وہاں اس کے سامنے عام آدمی پارٹی کا وجود بھی مسائل پیدا کرسکتا ہے ۔ کانگریس کسی طرح سے ہریانہ میں اپنے وجود کا احساس دلانے کوشاں ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ اگر منوہر لال کھتر حکومت کو کانگریس زوال کا شکار نہ بھی کرپائے تب بھی اس کیلئے مشکلات میں اضافہ ضرور کرسکتی ہے لیکن وہاںعام آدمی پارٹی کانگریس کیلئے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے مقابلہ کرنے سے مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم ہوجائیں گے اور جو موافق بی جے پی ووٹ ہیں وہ تو نہ عام آدمی پارٹی کو ملیں گے اور نہ کانگریس کو۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد کے حوصلے بلند ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی ۔ پھر حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بھی ان دونوں جماعتوں کے اتحاد کا مظاہرہ بہترین رہا ہے ۔ اب بھی دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اتحاد میں مقابلہ کر رہی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اپوزیشن کو بالکل بے بس کرنے کیلئے کانگریس اور این سی پی کے کئی قائدین کو اپنی صفوںمیں شامل کرنے کی کامیاب مہم بھی چلائی گئی ہے ۔ اس صورتحال میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کانگریس اور این سی پی حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔
لوک سبھا انتخابات کی شکست کے بعد جب راہول گاندھی نے کانگریس کی صدارت سے علیحدگی اختیار کرلی اس کے بعد سے پارٹی میں اور بھی انتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ حالانکہ سونیا گاندھی کو عبوری صدر بنادیاگیا ہے لیکن مہاراشٹرا میں کانگریس قائدین کو خود اپنی پارٹی پر اعتماد سے زیادہ اقتدار کی لالچ متاثر کر رہی ہے ۔ جو قائدین اقتدار کے بھوکے تھے وہ پارٹی کی صفوں کو چھوڑ چکے ہیں۔ جو قائدین موجود ہیں ان میں بھی کچھ ایسے ہیںجنہیں دوسری پارٹیاں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یقینی طور پر خاطر خواہ تعداد ایسے قائدین کی بھی ہے جو پارٹی یا پارٹی کے نظریات سے پختہ وابستگی رکھتے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پارٹی کی قیادت کون کریگا ۔ انتخابی مہم میں جان کون پیدا کریگا ۔ عوام اور رائے دہندوں کو پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب کون دے گا ۔ حالانکہ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی بھی مہاراشٹرا میں جلسوں سے خطاب کرینگے اور ہوسکتا ہے کہ بڑے ہجوم بھی جمع کئے جائیں لیکن ایک جامع حکمت عملی اور باضابطہ مشنری کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان عوام کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ۔ اس پہلو پر کانگریس کو اور اس کے قائدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ مقامی اور کچھ غیر مقامی قائدین اور ووٹ کٹوا بھی دوسروں کے آلہ کار بن کر سکیولر طاقتوں کو نقصان پہونچانے کیلئے تیار کرلئے گئے ہیں۔ ا ن کا بھی پارٹی کو خیال رکھنا ہوگا ۔
کانگریس اور این سی پی کیلئے کچھ قائدین کے انحراف اور پارٹی چھوڑنے پر مایوس ہونے کا وقت نہیں ہے ۔ پارٹی کے کیڈر اور کارکنوں کے جوش و خروش کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر واقعی سنجیدگی کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لینے اور حالات اور برسر اقتدار کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کیلئے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔ مایوسی کے ساتھ کی گئی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی اس لئے عزم اور حوصلے کے ساتھ ‘ پورے جذبہ اور منصوبہ بندی کے ساتھ مقابلہ کیلئے ان دونوںکو تیاری کرلینی چاہئے ۔ہر محاذ پر مقابلہ کی تیاری کی جانی چاہئے اور اپنی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ اسی طرح سے مقابلہ کو سخت کو بنایا جاسکتا ہے ۔