سلطان الاولیاء حضرت سیدنا غوث الآعظم ؓ

   

مولانا قاری محمد مبشر احمد رضوی
سلطان الاولیاء سیدنا عبد القادر الجیلانی المعروف بہ غوث الآعظم ؓ کی ولادتِ با سعادت‘ ۲۹؍ شعبان یا یکم رمضان المبارک ۴۷۰ھ؁ م ۱۰۷۸ء؁ کو قصبۂ جیلان بغداد شریف (عراق) میں عمل میں آئی۔ آپکی والدہ ماجدہ حضرتہ فاطمہ اُمّ الخیر ؒ بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اسقدر احترام تھا کہ سیدنا غوثِ آعظم ؓ رمضان بھر دن میں قطعی دودھ نہیں پیتے تھے۔ سیدنا غوث الآعظم ؓ اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فرماتے کہ عمر کے ابتدائی دور میں جب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تو غیب سے آواز آتی تھی کہ اے عبد القادر! لہوولعب سے دور رہو یہ آواز سنکر میں اپنی والدہ معظمہ کی آغوشِ محبت میں چُھپ جاتا۔
آپ نے اپنے وطن جیلان میں باضابطہ قرآن مجید ختم فرمایا اور چند دینی کتابیں بھی زیرمطالعہ رہیں۔ حضرت شیخ حماد ؓنے اپنی خصوصی نوازشات کے ساتھ حفظ قرآن اور دیگر علمی فیوض و برکات سے نوازا ۔ حضرت غوث آعظم ؓ نے سترہ(۱۷)جلیل القدر‘ اساتذۂ کرام سے اکتساب فیض حاصل فرمایا۔ آپ واعظ بے بدل‘ بہترین خطیب ‘ بے مثال ادیب ‘ مرشد و رہنمائے کامل بنکر مخلوق الٰہی کو فیضیاب فرمایا ،تقریر و تحریر میں یدِ طولیٰ (مہارت) حاصل تھا ۔ حضرت غوث الآعظم ؓ کی کثرتِ عبادت کا اندازہ اِن روایتوں کے ذریعہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ چالیس سال تک آپ نے پابندی کے ساتھ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادافرمائی پندرہ برس تک معمول کے مطابق نماز عشاء کے بعد مکمل قرآن مجید ختم فرمایا اور پچیس (۲۵) برس تک جنگلوں میں تنہا رہکر عبادت و ریاضت میں مشغول رہے یہاں تک کہ روحانیت کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئے ۔ آپکی مجلسِ وعظ میں ساٹھ (۶۰) تا ستّر (۷۰) ہزار‘ افراد شریک ہو کر علمی حقائق ‘ اوراسرارِ معرفت سے استفادہ کرتے ۔
اے اللہ! ہمارے مرکز عقیدت کی مزار پُرانوار پر اپنی رحمتوں کے پھول برسا۔آمین