موہن بھاگوت … مسلمانوں کو نصیحت یا دھمکی
2024 عام انتخابات کیلئے ہندوتوا ایجنڈہ
رشیدالدین
’’مشن 2024 ‘‘ بی جے پی اور آر ایس ایس ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام ہندوتوا تنظیمیں آئندہ لوک سبھا انتخابات پر توجہ مرکوز کرچکی ہیں۔ جس طرح آر ایس ایس کے سیاسی شعبہ کی حیثیت سے بی جے پی کا شمار ہوتا ہے ، ٹھیک اسی طرح ہندوتوا تنظیموں نے سیاسی شعبہ جات کو متحرک کردیا ہے ۔ ہر کسی کا ایک ہی مقصد ہے کہ بی جے پی اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرے تاکہ ملک کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنے کا خواب پورا ہوجائے۔ مقصد اور مشن کی تکمیل کیلئے ہر چھوٹی بڑی تنظیم نے اپنا رول شروع کردیا ہے۔ کوئی نظریاتی اور فکری طور پر ہندوؤں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے میں مصروف ہیں تو بعض دوسرے جارحانہ کارروائیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو حملوں کا نشانہ بناتے ہوئے حوصلے پست اور خوف و دہشت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ نظریاتی طور پر ذہنیت کو زہر آلود کرنے کا کام آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے ذمہ لیا ہے جبکہ نفرت کے دوسرے سوداگر اشتعال انگیز بیان بازی کے ذریعہ رہی سہی کسر پوری کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی بستیوں کو اجاڑ کر بے گھر کرنے کی مہم بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں جاری ہے اور مختلف عنوانات کے تحت تشدد اور مارپیٹ کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ہر روز صبح اخبارات کھولتے ہی جارحانہ فرقہ پرستی کے بیانات یا عملی مظاہرہ کے واقعات سے سامنا ہوتا ہے۔ گودی میڈیا پر 24 گھنٹے کسی نہ کسی عنوان سے نفرت کے ایجنڈہ کی تشہیر جاری ہے۔ جس کسی چیانل کو آن کریں وہاں چند چاپلوس اور چاٹوکار اینکرس مخصوص پیانل کے ساتھ مباحث میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ پرنٹ ہو کہ الیکٹرانک میڈیا دونوں پر بی جے پی کا عملاً کنٹرول ہوچکا ہے ۔ حکومت کی مخالفت کرنے والے صحافیوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے ۔ یہ تمام سرگرمیاں محض لوک سبھا چناؤ کے ضمن میں ہیں ۔ نفرت پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے اور اُن بے لگام عناصر کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ملک کا اتحاد اور یکجہتی خطرہ میں پڑسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی کا کوئی خیال نہیں۔ بی جے پی میں لوک سبھا چناؤ کی مہم کی کمان امیت شاہ کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ دنوں تریپورہ سے امیت شاہ نے رام مندر کی جنوری 2024 ء تک تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے انتخابی مہم کا آ غا ز کر دیا۔ رام مندر تحریک نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا اور اسی مندر کی تعمیر 2024 ء میں تیسری مرتبہ اقتدار کی ضمانت بن سکتی ہے۔ یکساں سیول کوڈ ، NRC اور CAA جیسے امور پر امیت شاہ کے بیانات اور اعلانات نے پہلے ہی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا ہے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے عام مسلمانوں سے گفتگو کریں تو وہ اس قدر خوفزدہ ہیں کہ مزاحمت تو دور کی بات ہے ، مخالفت کیلئے بھی آمادہ نہیں۔ الغرض چاروں طرف سے ہندو غلبہ کی باتیں ہورہی ہیں۔ آر ایس ایس سربراہ نے شروع میں مسلمانوں کے آبا و اجداد کو ہندو ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں اپنی حکمت عملی کو تبدیل کردیا۔ نام نہاد مسلم تنظیموں سے روابط استوار کرنے اندریش کمار کو میدان میں اتارا گیا اور دہلی کی ائمہ مساجد کی تنظیم کو اپنا ہمنوا بنالیا ۔ مسلمانوں کا دل جیتنے کیلئے بھاگوت نے مسجد اور مدرسہ کا دورہ کیا ۔ پھر کیا تھا کہ ایک ناعاقبت اندیش اور چاپلوس شخص نے انہیں راشٹر پتا (بابائے قوم) کہہ کر گاندھی جی کی توہین کی ہے۔ مسلمانوں میں موہن بھاگوت کے سفیر بن کر آنے والے بظاہر مذہبی رہنما اس وقت خاموش رہے جب دینی مدارس میں جمعہ کی تعطیل اور سرکاری اسکولوں میں علامہ اقبال کی دعائیہ نظم پڑھانے پر اعتراض کیا گیا۔ موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں غیر محسوس طریقہ سے مسلمانوں کو دھمکی دی ہے کہ وہ اپنی حد میں رہیں اور ہندوستان کو ہندو راشٹر کے طور پر قبول کرلیں ۔ ’’مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں‘‘۔ یہ جملہ بھاگوت نے ادا ضرور کیا لیکن دوسرے ہی لمحہ مسلمانوں کو نصیحت کی کہ بے خوف ہونے کا مطلب ملک پر اپنا حق جتانے کی کوشش نہ کریں۔ بھاگوت بالواسطہ طور پر کہنا چاہتے تھے کہ مسلمان بے خوف ضرور رہیں لیکن سر اٹھاکر نہیں بلکہ سر جھکاکر ملک میں ساجھیداری کے بجائے تابعداری قبول کرلیں۔ مسلمان جنہوں نے ملک کی آزادی کیلئے قربانیاں دیں اور ترقی میں اہم رول ادا کیا ، انہیں محکوم اور اکثریتی طبقہ کے احسان مند ہوکر جینا ہوگا ۔ مسلمانوں کو ذہنی طور پر پست ہمت کرنے کیلئے بھاگوت نے کہا کہ مسلمان اپنے قابل فخر اور تابناک ماضی کو بھول جائیں۔ کبھی یہ خیال بھی ذہن میں نہ آنے پائے کہ ہم نے اس ملک پر حکمرانی کی تھی ۔ یہ محض اس لئے ہے کہ اگر مسلمان اپنے اجداد کے کارناموں کو یاد کرنے لگ جائیں گے تو ان میں برتری کا جذبہ پیدا ہوگا اور وہ مساوی حصہ داری کا مطالبہ کریں گے۔ لہذا ہر اعتبار سے ذہنی ، فکری اور جسمانی طور پر پسماندہ اور پژ مردہ بنادیا جائے تاکہ کوئی جذبہ اور امنگ پیدا نہ ہو۔ بی جے پی ، آر ایس ایس اور ان کے بغل بچے مسلمانوں کو اس سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں جہاں وہ اپنے دینی اور ملی تشخص کو فراموش کردیں۔ مسلم قیادت یا اپنے قائدین کو تیار کرنے کے بجائے وہ بی جے پی کی تائید کے لئے مجبور ہوجائیں۔ ہندوستان میں رہنا ہو تو ہندوتوا ایجنڈہ کی تائید کریں۔ بھاگوت چاہتے ہیں کہ مسلمان خود کو دوسروں سے برتر نہ سمجھیں۔ آر ایس ایس سربراہ کو جان لینا چاہئے کہ خود خالق کائنات نے اسلام کے ماننے والوں کو دوسروں پر فضیلت دی ہے اور قرآن مجید میں خیر امت کے لقب سے نوازا گیا ۔ جس دل میں ایمان کی حرارت ہو ، وہ کسی سے کم تر نہیں ہوسکتا بلکہ وہ تمام دوسروں میں برتر ہی رہے گا۔ مسلمان اسلام اور ایمان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنے شاندار ماضی کو فراموش کریں گے۔ تاریخ سے انکار کوئی نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں نے ملک پر 800 برس تک حکمرانی کی ۔ رعایا پروری، رواداری اور تمام سے یکساں سلوک وا نصاف کے نتیجہ میں اکثریتی طبقہ نے بھی مسلم حکمرانوں کو قبول کیا۔ مسلمانوں کو اپنی تاریخ اور ورثہ پر فخر کیوں نہ ہو کیونکہ آج بھی ہندوستان کی اہم یادگار اور شاہکار عمارتیں جن پر ملک کو ناز ہے، وہ مسلم حکمرانوں کی دین ہیں۔ مغلوں کے نام سے نفرت کرنے والے ہر سال قومی پرچم لہرانے کیلئے لال قلعہ سے ہٹ کر کسی اور مقام کا تعین کیوں نہیں کرتے۔ لال قلعہ جیسی یادگار کم از کم تعمیر کر کے دکھائیں۔ آج بھی ملک کا قومی پرچم ترنگا مسلمانوں کی یادگار کی زینت بنتا ہے۔ مغلوں کی اس یادگار میں ترنگے کو اپنے سر کا تاج بنایا ہے۔
نفرت کے سوداگروں نے کئی ہندو بادشاہوں کو ہندوتوا کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ مہاراشٹرا کے شیواجی کو کٹر ہندو راجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن ان کی فوج میں مسلمانوں کو اہم ذمہ داریاں دی گئیں تھیں۔ سیاسی فائدہ کیلئے شیواجی کی رواداری کو فراموش کردیا گیا۔ موہن بھاگوت کے بیان کے بعد بعض گوشوں سے یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ آر ایس ایس سربراہ کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور انہوں نے ہندوؤں کو بھی دوسروں سے برتر سمجھنے سے منع کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی موہن بھاگوت بدل چکے ہیں ؟ اگر گودی میڈیا نے شرارت کی تو پھر آر ایس ایس اور بھاگوت نے وضاحت کیوں نہیں کی۔ دراصل گودی میڈیا بی جے پی کی خدمت میں مصروف ہے اور موہن بھاگوت کی خاموشی ان کی رضامندی کا اظہار ہے۔ مسلمانوں کو موہن بھاگوت کی نصیحت نما دھمکی پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی وہ کئی قابل اعتراض بیانات دے چکے ہیں۔ موہن بھاگوت بیک وقت بی جے پی اور گودی میڈیا کو خوش رکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر ان کا قیام تمام مذاہب کیلئے تھا تو پھر انہیں وضاحت کرنی چاہئے تھی۔ دراصل راہول گاندھی سے خوف کے نتیجہ میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے ہر محاذ پر لڑائی شروع کردی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی سے مودی حکومت اور بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ کورونا کا بہانہ بناکر یاترا کو روکنے کی کوشش کی گئی اور وزیراعظم نے کورونا کے مسئلہ پر ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے خوف کا ماحول پیدا کیا ۔ راہول گاندھی یاترا کے دوران تمام مذاہب کی عبادتگاہوں پر حاضری دے رہے ہیں اور یہی چیز سنگھ پریوار کو برداشت نہیں۔نریندر مودی روزانہ اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے۔ اگر کارناموں پر اتنا بھروسہ ہے تو پھر ہندوتوا ایجنڈہ کی کیا ضرورت ہے۔ کارناموں کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگیں۔ بی جے پی کے کارنامے ان کی زیر اقتدار ریاستوں میں سامنے آرہے ہیں۔ آسام میں سینکڑوں مسلمانوں کے گھر اجاڑدیئے گئے۔ بنگلور میں ہندو لڑکی سے بات کرنے پر مسلم نوجوان کی پٹائی کردی گئی ۔ اس طرح کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کو بے خوف رہنے کا درس دینے والے موہن بھاگوت ان واقعات پر خاموش کیوں ہیں۔ نامور شاعر حیدر علوی نے حالات پر خوب تبصرہ کیا ہے ؎
سلگتے شہر زہریلی زبانیں
دلوں میں ان کے ہندوستان کب ہے