سماجی اتحاد متاثر کرنے کی سازش

   

نہ جانے کیا کہہ رہے ہیں پتے!
نہ جانے کیوں شاخ جھومتی ہے!
سماجی اتحاد متاثر کرنے کی سازش
جب سے ملک میں سی اے اے کو لاگو کیا گیا ہے اور این پی آر و این آر سی پر عمل کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں اس وقت سے ایک انتہائی اہم اور مثبت تبدیلی سارے ہندوستان میں دیکھنے میں آئی ہے کہ سماج کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ان قوانین کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے ان قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ہندو برادری کا تعاون قابل قدر ہے ۔ انصاف پسندی کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے ہندو برادری ہو کہ دوسرے برادران وطن ہوں سبھی ان قوانین کے خلاف ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کر احتجاج میں اپنی حصہ داری نبھانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ دہلی میں ایک مثال بن جانے والے شاہین باغ کے احتجاج کیلئے ہمارے ایک سردار بھائی کی جانب سے ایک فلیٹ کو فروخت کرکے لنگر کا اہتمام کیا جا رہا ہے تو ہمارے ملک کی باوقار جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان طلبا و طالبات ‘ جو مسلمان نہیںہیں ‘ وہ بھی مسلمانوں سے زیادہ شدت کے ساتھ اس احتجاج سے وابستہ ہیں اور حکومت پر سب سے زیادہ کھل کر تنقیدیں کر رہے ہیں اور حکومت کی سازشوں کو بے نقاب کرنے میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ دو قدم آگے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہونے والوں میں بھی دیگر ابنائے وطن ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں اور یہی وہ پہلو ہے جس سے فرقہ پرستوں کی صفوں میں پریشانی بڑھ گئی ہے ۔ سرکاری گوشوں سے ہو یا پھر دوسرے موقع پرست گوشوں سے ہوں سبھی کی جانب سے اس اتحاد کو نشانہ بنانے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں لیکن ان کوششوں کو ہمارے شہریوں نے ناکام بنادیا ہے ۔ کئی طرح سے کوشش ہو رہی ہے کہ اس اتحاد کو متاثر کیا جائے اور جو احتجاج سارے ملک میں چل رہا ہے اس کو صرف مسلمانوں سے جوڑ دیا ہے اور دیگر ابنائے وطن کو اس سے الگ کردیا جائے ۔یہ گوشے اب تک اپنی کوششوں میں ناکام ہوچکے ہیں اسی لئے ایسا لگتا ہے کہ اب ایک دوسرے پہلو سے اس اتحاد کو متاثر کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔
گلبرگہ میں ایک جلسہ میں مہاراشٹرا کے ایک سابق رکن اسمبلی نے جو تقریر کی ہے وہ اسی کوشش کی سمت اشارہ کرتی ہے ۔ اس سے قبل بھی اسی طرح پندرہ منٹ والا بیان دیا گیا تھا جس سے بی جے پی نے سارے ہندوستان میں سیاسی فائدہ حاصل کیا اور اپنی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرلیا تھا ۔ اب اسی طرح 15 کروڑ لوگ 100 کروڑ لوگوں پر بھاری پڑنے کی بات کہی گئی ہے ۔ اس سے بھی فرقہ پرست عناصر فائدہ حاصل کرنے کی کوشش شروع کرچکے ہیں۔ جو زر خرید میڈیا ہے وہ بھی اس پر اپنے سیاسی آقاوں کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں سرگرم ہوچکا ہے ۔ یہ در اصل ایک ایسا بیان تھا جس سے سارا مخالف سی اے اے و این پی آر و این آر سی احتجاج سبوتاج ہوسکتا ہے ۔ عوامی جلسوں میں تقاریر کرتے ہوئے ملک کے حالات کو درپیش رکھتے ہوئے اہم مسائل پر سنجیدگی سے اظہار خیال کرنے اور عوام کو ان مسائل کا حل دریافت کرنے کیلئے تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس طرح کی بے تکی اور بیہودہ باتیں کہتے ہوئے اگر کوئی ملک کے ماحول کو پراگندہ کرتا ہے اور ایک تحریک و ایک احتجاج کو بے وقعت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی ہر گوشے سے مذمت کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود سابق رکن اسمبلی کی پارٹی کو اس پر اپنے موقف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے اگر جماعت اس کا حصہ نہیںہے تو اسے سابق رکن اسمبلی کو خارج کردینا چاہئے ۔
اس طرح سے بے قابو زبان استعمال کی گئی ہے اس سے سیاہ قوانین کے خلاف عوامی تحریک کمزور ہوسکتی ہے اور اس سے ملت کے مفادات قربان ہونگے ۔ سارے ہندوستان کے عوام کو بھی یہ بات اب کم از کم سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ جذباتی نعروں اور اشتعال انگیز تقاریر نے ان کا بھلا کبھی کیاہی نہیں بلکہ آج جس پسماندگی اور ابتر حالات کا مسلمان شکار ہیں اس کیلئے یہی جذباتی نعرے اور اشتعال انگیز تقاریر ذمہ دار ہیں۔ آج فرقہ پرستوں کے عروج میں ان ہی نعروں اور تقاریر کا کہیں نہ کہیں کوئی رول ضرور ہے ۔ جذباتیت کی بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ تدبر اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم کو دیگرا بنائے وطن کو مایوس نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایسا رویہ اور طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ ہم سے دور ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ جڑ جائیںاور ہمارا ساتھ دینے کیلئے آگے آئیں۔