تلنگانہ کے ضلع سدی پیٹ میں ایک خاندان کے سماجی بائیکاٹ کامذموم اور بدترین واقعہ پیش آیا ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ گاوں کے کسی فرد نے ایک معمر شخص کی آخری رسومات میں تک شرکت نہیں کی کیونکہ گاوں کے ذمہ داروں کی جانب سے ان پر جرمانہ عائد کئے جانے کا خدشہ تھا اور ایک لڑکی کو اپنے والد کی آخری رسومات انجام دینی پڑیں۔ یہ واقعہ ضلع سدی پیٹ کے اکبر پور ۔ بھوم پلی منڈل کے بوپا پور گاوںم یں پیش آْیا ۔ اس گاؤںمیں مقیم 71 سالہ شخص بی سائیلو کے خاندان کے بائیکاٹ سے متعلق ہے ۔ یہ سارا معاملہ کسی اراضی تنازعہ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا ۔ کہا جا رہا ہے کہ بی سائیلو کے خاندان کی کچھ اراضی ہے اور گاوں کے ذمہ دار چاہتے تھے کہ وہ ان کی طئے کردہ قیمت پراراضی فروخت کردیں تاہم سائیلو اور اس کے افراد خاندان اس کیلئے تیار نہیں ہوئے ۔ اس کے نتیجہ میں سارے گاوں والوںکواس خاندان کے سماجی بائیکاٹ کیلئے مجبور کیا گیا ۔ گذشتہ دنوں سائیلو کی طویل علالت کے بعد موت واقع ہوگئی ۔ افراد خاندان نے گاوںوالوںکو مطلع بھی کیا ۔ ان کے رشتہ دار بھی دوسرے مقامات سے وہاں پہونچ گئے تھے لیکن گاوں کے ذمہ داروں نے گاوں کے کسی بھی فرد کو آخری رسومات میںحصہ لینے سے روک دیا اور انتباہ دیا کہ جو کوئی آخری رسومات میںشرکت کریگا اس پر پانچ ہزار روپئے جرمانہ عائد کیا جائیگا ۔ اس خوف سے گاوں کے کسی بھی فرد نے آخری رسومات میںشرکت نہیںکی اور متوفی سائیلو کی چھوٹی دختر کو اپنے والد کی آخری رسومات ادا کرنی پڑیں۔ یہ واقعہ ہمارے سماج کیلئے انتہائی شرمناک اورافسوسناک ہے ۔ اس طرح کے واقعات اگر آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پیش آتے ہیں اور مقامی انتظامیہ اس کو روکنے میں ناکام ہوتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ سائیلو کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس پر اورسائیلو پر 2021 میںگاوں کے ذمہ داروں نے معمولی بات پر 20 ہزار روپئے جرمانہ عائد کیا تھا ۔ اس کے بعد سے ہی سماجی بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے اور ایک وقت ایسا بھی آگیا تھا جب سارے خاندان نے اجتماعی خودکشی کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ سماجی بائیکاٹ کا سلسلہ سائیلو کی موت پر بھی جاری رہا ۔
گاوں اور دیہاتوں میں ہو یا پھر شہروں میں ہو عوام کے درمیان کسی نہ کسی مسئلہ پر اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے کسی خاندان کا سماجی یا معاشی بائیکاٹ کرنا ایک طرح کا جرم ہے ۔ خاص طور پر منظم انداز میں پنچایت کی جانب سے یا دوسرے ذمہ داروں کی جانب سے اس طرح کے واقعات کو مسلط کرنا ایک بڑا جرم ہوسکتا ہے اور اس پر قانونی کارروائی کرتے ہوئے دوسروں کیلئے مثال قائم کی جانی چاہئے ۔ اگر کوئی خاندان اپنی اراضی کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے تیار نہ ہو تو یہ آزاد ہندوستان میں ان کا حق ہے اور ان کا اختیار ہے ۔ کسی کو بھی اپنی جائیداد یا کوئی بھی چیز فروخت کرنے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا ۔ اگر مالک کی اپنی مرضی سے کوئی خرید و فروخت ہوتی ہے تو یہ الگ بات ہے تاہم کسی کو مجبور کرنا اور دباؤ تسلیم نہ کرنے پر سماجی بائیکاٹ کرنا انتہائی افسوسناک اور شرمناک بات ہے ۔ جہاں تک انتظامیہ کا سوال ہے اسے اس طرح کے واقعات کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور جن لوگوں نے ‘ چاہے وہ کسی بھی مرتبہ یا عہدہ پر فائز کیوں نہ ہوں ‘ اس طرح کی حرکت کی ہے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں قانون کے تحت سزائیں دلانی چاہئیں۔ اس طرح کے واقعات کو ہرگز بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ نہ ملک کے قانون میں اس کی گنجائش ہے اور نہ ہی ایسے واقعات کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ ایسے واقعات سماج کیلئے بھی باعث شرم اور افسوس ہی کہے جاسکتے ہیں۔
جو واقعہ سدی پیٹ کے گاوں میں پیش آیا ہے اس پر سماج کے سبھی ذمہ دار گوشوں کو بھی حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے واقعات سے کسی کی زندگی کو نشانہ بنانا انتہائی افسوسناک ہے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر کسی کا سماجی یا معاشی مقاطعہ یا بائیکاٹ ہو رہا ہے تو پھر ہم ترقی یافتہ دور میں نہیں بلکہ تاریک دور میں جی رہے ہیں۔ انتظآمیہ کو حرکت میںآنے کی ضرورت ہے اور از خود واقعہ کا نوٹ بلی لیا جاسکتا ہے اور سماجی مقاطعہ کے ذمہ دار افراد کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں سخت سزائیں دلائی جانی چاہئیں تاکہ دوسروں کیلئے عبرت ہوسکے اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہونچایا جاسکے ۔