سندور آپریشن ‘ کل جماعتی اجلاس

   

دلوں میں جب وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو
ہندوستان کی مسلح افواج کی جانب سے کئے گئے آپریشن سندور کی کامیابی سے حکومت نے ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو واقف کروایا ۔ جو کچھ کارروائی کی گئی اور دہشت گردوں کو کتنا نقصان پہونچایا گیا اور دہشت گردوں کی کتنی اموات ہوئی ہیںان سب کی تفصیلات سے کل جماعتی اجلاس میں حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو واقف کروایا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں حکومت کی جانب سے منعقدہ یہ دوسرا کل جماعتی اجلاس تھا ۔ ایک اجلاس پہلگام حملے کے بعد منعقد ہوا تھا جس میں حکومت کو کسی بھی کارروائی کیلئے اپوزیشن کی تائید حاصل ہوئی تھی ۔ اس بار بھی آپریشن سندور کے بعد حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی سمت آگے بڑھتے ہوئے کل جماعتی اجلاس طلب کیا ہے اور ممکنہ حد تک تفصیلات سے واقف کروایا گیا ہے ۔حکومت کا یہ اقدام ایک اچھی پہل کہا جاسکتا ہے ۔ ملک کو درپیش سنگین صورتحال میں متحدہ اور مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے مخالفین کو واضح پیام دیا گیا ہے ۔ حکومت نے جہاں اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ساتھ لینے کی کوشش کی ہے وہیں اب حکومت کو کشمیر میں بھی اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کشمیر ہندوستان کا تھا ۔ ہندوستان کا ہے اور ہندوستان کا ہی رہے گا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے عوام کو بھی یہ تاثر دینے کی ضرورت ہے کہ کشمیری عوام بھی ہندوستان کا ہی حصہ ہیں۔ وہ ہم سے الگ نہیںہیں۔ ان کے ساتھ کسی طرح کے بھید بھاؤ والا رویہ نہیں اختیار کیا جانا چاہئے ۔ انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے ہمارے قومی دھارے کے ساتھ لے چلنے کی ضرورت ہے ۔ کشمیر کے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں ۔ ان صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف کشمیر کی ‘ کشمیر کے عوام کی صورتحال بدلی جاسکتی ہے بلکہ ان سے ملک کی ترقی میں بھی رول ممکن ہوسکتا ہے ۔ ملک کی ترقی کے ثمرات سے کشمیر کو بھی مالا مال کیا جاسکتا ہے ۔ وہاں سیاحت کے فروغ کے ذریعہ معاشی سرگرمیوں کو مستحکم کیا جاسکتا ہے ۔ انہیں وسعت دی جاسکتی ہے اور روزگار کے مواقع بھی فراہم کئے جاسکتے ہیں۔
کشمیر اور کشمیری عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خصوصی منصوبے بنائے جاسکتے ہیں اور بنائے جانے کی ضرورت ہے ۔ آج ہندوستان بھر کا جو ماحول ہے وہ اتحاد و اتفاق کا ہے ۔ ایک یکجہتی کا ماحول پیدا ہوا ہے ۔ عوام میں ملک کے تئیں حب الوطنی کے جذبات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ حالانکہ کچھ گوشوں کو یہ صورتحال پسند نہیں آ رہی ہے اور وہ رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ ہندو ۔ مسلم تفریق پیدا کرنے کے منصوبوں پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کیا جارہا ہے ۔ ایسے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیںکیفر کردار تک پہونچاتے ہوئے ملک گیر سطح پر پیدا ہوئے اتحاد و یکجہتی کے ماحول کو مزید مستحکم کیا جاسکتا ہے اور اسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ اس ماحول میں کشمیر کے عوام کو بھی حصہ داری دی جانی چاہئے ۔ انہیں بھی ملک کے ترقیاتی سفر میںشریک کرنے کی ضرورت ہے ۔ کشمیر میںجو صلاحیتیں ہیں انہیں استعمال میں لانے کیلئے منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔ کچھ حد تک جو سیاحت بحال ہوئی تھی اس کو مزید بحال کیا جانا چاہئے ۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے اثرات کے نتیجہ میں سیاحتی سرگرمیوں کو متاثر ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ جامع منصوبہ بندی اورعملی اقدامات کے ذریعہ حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور بنایا جانا چاہئے ۔ ترقیاتی منصوبے تیار کرتے ہوئے موثر ڈھنگ سے عمل آوری کی جانی چاہئے اور تمام منصوبوں کو ایک وقت مقرر کرتے ہوئے پایہ تکمیل کو پہونچانے کی ضرورت ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ مشکل وقت کو موقع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ یقینی طور پر ایک مشکل وقت ضرور آیا ہے لیکن ہمارے ملک نے اس کو ایک موقع میں تبدیل کردیا ہے ۔ مثبت سوچ اور عمل کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ایک بہترین مثال ہم نے ساری دنیا کے سامنے پیش کی ہے ۔ دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور انہیں سبق سکھایا گیا ہے ۔ اب سیاسی جماعتوں کو جس طرح اعتماد میں لیا گیا اسی طرح کشمیری عوام کو بھی اعتماد میں لینے ‘ ان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے اور ہم آہنگی کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کشمیر اور کشمیری عوام کی ترقی کو بھی یقینی اور ممکن بنایا جاسکے ۔