سنچار ساتھی ایپ کا تنازعہ

   

تقدیر کچھ ہو کاوشِ تدبیر بھی تو ہے
تخریب کے لباس میں تعمیر بھی تو ہے
مرکزی حکومت کے ایک تازہ فیصلے نے نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے اور سیاسی جماعتیں حکومت پر جاسوسی کا الزام عائد کرنے لگی ہیں۔ مرکزی حکومت نے فون تیار کرنے والی کمپنیوں کو ہدایت دی ہے کہ تمام نئے فونس جو تیار کئے جا رہے ہیں ان میں مرکزی حکومت کے سنچار ساتھی نامی ایپ کو لازمی شامل کریں۔ مرکزی حکومت کا دعوی ہے کہ گاہکوں کی سکیوریٹی اور انو کو دھوکہ دہی سے بچانے کیلئے اس ایپ کو موبائیل فونس میںشامل رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تاہم مرکزی حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے ایک نیا تنازعہ پیدا ہوگیا ہے اور اپوزیشن جماعتیں یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ حکومت راست ہر موبائیل صارف کے فون تک رسائی حاصل کرنے اور نظر رکھنے کیلئے ایسا کر رہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ ملک میں سائبر دھوکہ اور آن لائین فراڈ کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ کئی افراد کو آن لائین دھوکہ دہی کا شکار بنایا گیا ہے اور نت نئے انداز سے عوام کو ٹھگنے کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی نے جہاں عوامی زندگیوںکو سہل اور آسان بنانے کی سمت پیشرفت کی ہے اور عوام کو سہولیات فراہم کی ہیں وہیں دھوکہ دہی کو بھی مواقع مل گئے ہیں۔ جو واقعات پیش آ رہے ہیں ان کو روکنا ضروری ہے اور عوام کو اس تعلق سے چوکسی اور شعور کا مظاہرہ بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم جو ایپ حکومت کی جانب سے لازمی طور پر موبائیل فونس میں شامل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ انفرادی حق پرائیویسی کی خلاف ورزی بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ راست ہر صارف کے فون تک حکومت کی رسائی ہو جائے گی اور یہ کہا نہیں جاسکتا کہ اس کے ذریعہ کیا کچھ مواد حاصل کیا جاسکتا ہے اور ڈیٹا کا کس طرح سے استحصال ہوسکتا ہے ۔ یقینی طور پر جو اندیشے اور شبہات پیدا ہو رہے ہیں وہ بالکل واجبی ہی ہیں اور ان سوالات پر حکومت کو ملک کے عوام کے سامنے وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں ان کے جوابات دئے جانے چاہئیں اور عوام کے حق پرائیویسی کی خلاف ورزی بھی نہیں کی جانی چاہئے ۔ اس معاملے میں قابل قبول راستہ نکالا جانا چاہئے ۔
اپوزیشن جماعتوں نے جو شبہات ظاہر کئے ہیں اور حکومت پر راست جاسوسی کا جو الزام عائد کیا ہے اس پر آج مرکزی وزیر مواصلات نے وضاحت کردی ہے کہ یہ ایپ لازمی نہیں ہے بلکہ یہ اختیاری ہے ۔ حکومت نے ایک دن قبل ہی جو ہدایت جاری کی تھی اس میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ فون تیار کرنے والی کمپنیاں اس ایپ کو لازمی طور پر فون میں شامل رکھیں۔ آج حکومت نے اسے اختیاری قرار دیا ہے اور یہ وضاحت کی ہے کہ اگر گاہک یا صارف چاہے تو اس کو ڈیلیٹ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کے دو دن میں جو دو بیانات آئے ہیں وہ ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں ۔ متضاد بیان بازی سے صورتحال واضح ہونے اور شبہات دور ہونے کی بجائے شبہات کو مزید تقویت ملتی ہے ۔ جب یہ ایپ اختیاری ہی ہے تو فون کی تیاری کے وقت ہی اس میں شامل کرنے کی کوئی ضر ورت نہیں ہوسکتی ۔ یہ اختیاری ہی ہے تو اسے پلے اسٹور میں شامل کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی گاہک یا صارف چاہے تو اس کو ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے استعمال کرسکتا ہے تاہم اس کو راست فون تیاری کے وقت ہی اس میںشامل کردینے کی ہدایت مشکوک کہی جاسکتی ہے ۔ ہندوستان میں ماضی میں بھی پیگاسیس سافٹ وئیر کے استعمال پر تنازعہ پید اہوا تھا اور یہ انکشافات ہوئے تھے کہ کئی اپوزیشن قائدین ‘ مرکزی وزراء ‘ عہدیداروں ‘ صحافیوں اور دیگر بااثر شخصیتوں کے فون تک رسائی حاصل کی گئی تھی اور جاسوسی کی گئی تھی ۔ یہ انکشافات معمولی نہیں کہے جاسکتے ۔
موبائیل فون صارفین گاہکوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کو آن لائین فراڈ یا سائبر دھوکہ دہی سے بچانے کے نام پر ان کے فون تک رسائی اور حق پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہئے ۔ عوام میں بڑے پیمانے پر اس تعلق سے شعور بیدار کرتے ہوئے انہیں دھوکہ سے بچایا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ دھوکہ دہی کے جو نیٹ ورکس چلائے جا رہے ہیں ان کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں اور جن ایپس کو دھوکہ سے بچانے میں معاون قرار دیا جا رہا ہے انہیں پلے اسٹور میںشامل کرکے گاہک کو ہی اختیار دیا جانا چاہئے کہ اگر وہ چاہے تو اس کو استعمال کرے ۔ عوام پر اس کے لازمی استعمال کی شرط مسلط نہیں کی جانی چاہئے ۔