دو رنگی خوب نئیں یک رنگ ہوجا
سراپا موم ہو یا سنگ ہوجا
مرکز کی نریندر مودی حکومت کے تعلق سے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے نظریاتی سرچشمہ آر ایس ایس کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتی رہی ہے اور سنگھ کے مشوروں کو سرکاری کام کاج میں پوری طرح سے عمل درآمد کیا جاتا رہا ہے ۔ تاہم یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ حالیہ کچھ وقتوںمیں مرکزی حکومت اور سنگھ کے مابین تعلقات اس حد تک گہرے اور قریبی نہیں رہے جتنے رہا کرتے تھے ۔ سنگھ کے کچھ مشوروں کو حکومت تسلیم کرنے تیارنہیں ہے اور سنگھ حکومت کے کچھ اقدامات کی مکمل تائید کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے نئے قومی صدر کا انتخاب ایک طویل وقت سے لیت و لعل کا شکار ہے اور پارٹی اس پر سنگھ کی مخالفت کی وجہ سے کوئی قطعی فیصلہ کرنے کے موقف میں نہیں ہے یا پھر فیصلے کو لگاتار ٹالا اور ملتوی کیا جارہا ہے ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ میدان پر سنگھ کے وجود اور اس کے اثر سے حکومت انکار بھی نہیں کرسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کئی اطراف سے مشکلات کا شکار ہونے کے بعد سنگھ کی چھتر چھایہ میں ہی عافیت سمجھنے لگی ہے ۔ حکومت کے حالیہ اقدامات اور فیصلے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ سنگھ کے اثرات ایک بار پھر حکومت پر غالب آنے لگے ہیں اور حکومت کو سنگھ کی اہمیت اور اس کی مدد کا احساس ہونے لگا ہے ۔ خاص طور پر بہار میں مجوزہ اسمبلی انتخابات کیلئے بی جے پی کو سنگھ کی تائید و حمایت کی ضرورت ہے ۔ سنگھ کی تائید کے بغیر بی جے پی بہار میں وہ نتائج حاصل نہیں کرسکتی جس کی اسے خواہش ہے ۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ سنگھ کی تائید کے بعد بی جے پی کو یقینی کامیابی ملے گی تاہم بی جے پی یہ ضرور محسوس کرنے لگی ہے کہ اب اس کیلئے سنگھ کی تائید حاصل کرنی لازمی ہوگئی ہے ۔ بہار اسمبلی انتخابات تک ہی بات محدود نہیں ہے ۔ حکومت کو کئی گوشوں سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ خاص طور پر ووٹ چوری اور دھوکہ دہی کے الزامات پر الیکشن کمیشن کے ساتھ بی جے پی بھی فکرمند ضرور دکھائی دے رہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ان الزامات پر الیکشن کمیشن سے زیادہ رد عمل بی جے پی ظاہر کر رہی ہے اور کمیشن کی مدافعت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے بھی آر ایس ایس کا تذکرہ کیا ۔ ایسا شائد پہلی مرتبہ کیا گیا ہے ۔ مودی نے اسے ایک این جی او قرار دیا حالانکہ یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ آج تک سنگھ کا کوئی رجسٹریشن تک نہیں کیا گیا ہے کہ اسے این جی او قرار دیا جاسکے ۔ اس کے علاوہ اب جبکہ ملک کے نئے نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب کرنا ہے تب بھی بی جے پی نے سنگھ کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مہاراشٹرا کے گورنر سی پی رادھا کرشنن کو بی جے پی نے این ڈی اے کا امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سی پی رادکھا کرشنن کا تعلق بھی آر ایس ایس سے ہے ۔ وہ جن سنگھ سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ ان تنظیموں سے اٹوٹ وابستگی رکھتے ہیں ۔سنگھ کو خوش کرنے اور پھر ٹاملناڈو میں اپنے قدم جمانے اور جنوبی ریاستوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کے طور پر بی جے پی نے سی پی رادکھا کرشنن کا اپنے امیدوار کے طور پر انتخاب کیا ہے ۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کیلئے سنگھ کی تائید اب ہر قدم پر ضروری ہوتی جا رہی ہے ۔ مودی حکومت تیسری معیاد میں کمزور ہوگئی ہے اور اسے اپوزیشن کے شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ رائے عامہ بھی حکومت کے خلاف مستحکم ہونے لگی ہے ۔ اس صورتحال میں بی جے پی کیلئے سنگھ کی تائید حاصل کرنی ضروری ہوگئی تھی اور اس کا احساس کرتے ہوئے بی جے پی اور حکومت دونوںہی سنگھ کی خوشامد پر اتر آئے ہیں ۔ حالیہ فیصلے اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔
جس وقت سے مرکز میں مودی حکومت کا قیام 2014 میں عمل میں آیا تھا اس کے بعد سے ہی کئی شعبہ جات میں سنگھ کی مداخلت شروع ہوگئی تھی اور ایک دہے کے عرصہ میں سنگھ نے کئی شعبہ جات میں اپنے وجود کو مستحکم بھی کرلیا ہے ۔ حکومت کچھ حد تک سنگھ سے دوری بنانے کی کوشش کر رہی تھی تاہم موجودہ حالات نے ایک بار پھر حکومت کو سنگھ کا دامن تھامنے پر مجبور کردیا ہے ۔ مودی حکومت کی کمزوری نے سنگھ کیلئے موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ ایک بار پھر بی جے پی پر اپنے تسلط کو مستحکم کرے اور دستوری اور قانونی عہدوں تک بھی سنگھ سے وابستہ افراد ہی کے تسلط کو یقینی بنائے ۔ بی جے پی اب سنگھ کے اشاروں پر کام کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔