سوشل میڈیا پر مجوزہ قانون سازی

   

کرتے ہیں تنہائی میں وہ گفتگو اپنے فون سے
واہ کیا مشغولیت ڈھونڈی ہے بیکاری کے ساتھ
انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت مسلمہ ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ سماج میں کئی طرح کی تبدیلیاں بھی لائی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ کئی مسائل کو پیش کیا جارہا ہے اور سماج کے بنیادی مسائل پر رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے حکومتوں پر اثر انداز ہوا جارہا ہے اور سماج کی حقیقت کو پیش کرنے میں سوشل میڈیا کا رول اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے دریعہ کئی طرح کی مہم چلائی جاتی ہے۔ اس کے ذریعہ عوام کی مدد ہو رہی ہے۔ عوام کو راحت مل رہی ہے۔ رابطوں میں آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ اطلاعات کی ترسیل بھی سہولت بخش ہوگئی ہے۔ دنیا بھر کے حالات سے آگاہی ہو رہی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے آگے پیش کرنے میں مواقع دستیاب ہو رہے ہیں۔ عوام کی زندگیوں میں سوشل میڈیا کے ذریعہ مثبت اور انقلابی تبدیلیاں بھی لائی گئی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ کاروبار اور تجارت بھی اس کے ذریعہ آسان ہوگئی ہیں اور تجارت کو فروغ بھی حاصل ہوا ہے۔ جن افراد کی صلاحیتوں سے دنیا کو واقف کروانے کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں تھا انہیں اب گھر بیٹھے ایسے پلیٹ فارمس دستیاب ہو رہے ہیں جن کے ذریعہ اب ہر کسی کی صلاحیت دنیا بھر میں پیش کی جاسکتی ہے۔ اس میں کسی درمیانی آدمی کی ضرورت بھی نہیں ہے اور نہ کسی کی جانب سے استحصال کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔ مثبت تبدیلیوں کے ساتھ سوشل میڈیا کے منفی اثرات بھی ضرور سامنے آئے ہیں۔ یہ منفی اثرات اتنے ہی خطرناک ہیں جتنے مثبت اثرات کے فوائد ہیں۔ ٹکنالوجی کے فروغ کو مثبت استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دھوکہ بازوں نے اس کا منفی استعمال کرتے ہوئے عوام کو نشانہ بنانے اور ٹھگنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک صورت بھی اختیار کرگیا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ انسانی جانوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے اور عزتوں اور عصمتوں کو بھی داغدار کرنے سے بالکل بھی گریزنہیں کیا جارہا ہے جو قابل مدمت ہے۔
ٹکنالوجی جتنی اڈوانس ہوگئی ہے اتنی ہی آسان بھی ہوگئی ہے۔ اس کے نتیجہ میں نوجوان نسل اس کی دلدادہ ہوگئی ہے اور خرابی اسی سے پیدا ہوئی اور وہ بھی تیزی سے پھیل گئی ہے۔ نوجوان نسل میں مثبت اور اچھی تبدیلی لانے کی بجائے اس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ نوجوان نسل میں بگاڑ پیدا کیا جارہا ہے۔ اس کو تباہی کے راستہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے دریعہ نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی پیدا کی جارہی ہے۔ ان میں شدت پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ آن لائن گیمس کا لالچ دے کر ان کو لوٹا جارہا ہے۔ ان کو خودکشی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ دوسروں پر حملوں کا رجحان فروغ دیا جارہا ہے۔ زندگی سے بیزاری پیدا کی جارہی ہے۔ اس صورتحال نے سارے سماج کو انتہائی تشویش کا شکار کردیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں سماج میں کھوکھلاپن پیدا ہو رہا ہے اور نوجوان نسل کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں لازمی طور پر ایسے اقدامات کی ضرو ہے جن کے ذریعہ نوجوان نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں مدد مل سکے اور ان کے استعمال کا سلسلہ بھی موثر ڈھنگ سے روکا جاسکے۔
اب مرکزی حکومت کی جانب سے 18 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر روک لگانے کی پہل کی گئی ہے۔ مسودہ قانون تیار کیا جاچکا ہے اور اس پر تجاویز طلب کی گئی ہیں۔ سماج کے سبھی ذمہ دار گوشوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے اور نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے اپنی رائے دینی چاہئے۔ حکومت نے جو پہل کی ہے اس کو مزید موثر اور مستحکم بنانا ہوگا۔ یہ ہر ذمہ دار اور فکرمند شہری کی ذمہ داری ہے۔ وقت گذرنے سے قبل سماجی بیداری ضروری ہے اور ایک بیدار اور ذمہ دار سماج ہی نوجوانوں کو تباہی سے بچاسکتا ہے۔ ان کے مستقبل کو محفوظ بناسکتا ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے۔