ڈاکٹر عاصم ریشماں
ہر تحریک اور جماعت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا منشور اور پروگرام سوسائٹی کے زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچے، اس کیلئے جو روایتی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ان میں اجلاس، جلسے، اجتماعات کا انعقاد، تربیتی نشستوں کا انعقاد، خط و کتابت، اشاعتی مواد، لیکچرز، آڈیو، ویڈیو کا استعمال بطور خاص شامل ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیان و اظہار کے ذرائع بھی بدلتے رہتے ہیں، ایک وقت تھا کاتب ذخیرہ علوم کو اپنے قلم سے محفوظ کرتے تھے اور پھر ٹائپ رائٹر ایجاد ہوا، پھر کمپیوٹر کے دور کا آغاز ہوا، اسی طرح تحریک کے پیغام کی برق رفتار ترسیل کے لیے سوشل میڈیا کا اضافہ ہوا۔ بلاشبہ سوشل میڈیا۲۱ ویں صدی میں ابلاغیات کی دنیا میں سب سے بڑا انقلاب ہے اور آج ہر جماعت، ہر دینی، سیاسی مذہبی تحریک سوشل میڈیا کا استعمال کررہی ہے،ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز ی کے ساتھ جاری و ساری ہے ، بلکہ اس میدان میں ٹیکنالوجی کی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں زیادہ تیز ہے۔ چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دُور دُور تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کردیا اور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی ،۔آج کے اس دور میں چاہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا جوان ہو یا بوڑھا ہر شخص سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے بنیادی طور پر آلات مضر نہیں ہوتے یہ منحصر ہوتا ہے استعمال کرنے والے پر یہ بات سوشل میڈیا کے ساتھ بھی ہے۔چونکہ اس وقت جوان اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں اور اور بچہ ہونے کی وجہ سے نادان ہوتے ہیں انہیں صحیح اور غلط میں فرق نہیں معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے اگر ان کی صحیح تربیت نہ کی جائے ان کے رہن سہن کو نہ دیکھا جائے ان کا خاص خیال نہ کیا جائے تو وہ انجانے میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال سکتے ہیں اس لیے اولاً تو والدین کو چاہیے کہ بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھیں لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو والدین کو اتنا ضرور پتہ ہونا چاہیے کہ بچہ کیا دیکھ رہا ہے،اپنا پورا وقت کہاں گزار رہا ہے،نیز والدین کو چاہیے کہ جب بچے موبائل مانگیں تو ایسی ویڈیوز ایسی تصاویر لگا کر دیں جو انہیں معلومات فراہم کرے ،جو ان کی موجودہ درس سے مطابقت رکھتی ہو،یا ایسی کہانیاں سنائیں اور دکھائیں جو اچھی اچھی باتیں بتاتیں ہوں، جو انہیں والدین کے ساتھ بڑوں اور بوڑھوں کے ساتھ برتاؤ کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہو،اس سے یہ ہوگا کہ بچوں کا دل بھی بہل جائے گا اور انہیں بہت سی معلومات بھی آسانی کے ساتھ فراہم ہو جائیں گی۔اِکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ اسلام انسانیت کی فلاح کے لیے جدید ذرائع کے استعمال کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ تاکید کرتا ہے۔ سماجی و مذہبی اور سیاسی و معاشی سطح پر اِنفارمیشن ٹیکنالوجی کے مثبت و منفی اثرات اس قدر ہمہ گیر ہیں کہ اس سے کسی کو مجالِ انکار نہیں ہے۔ تمام شعبہ ہاے زندگی میں تجدید و ترقی بذاتِ خود اس بات کی متقاضی ہے کہ دعوت و تبلیغِ دین کے لیے جدید وسائل اِختیار کیے جائیں۔