دل کھنڈر سا ہوگیا ہے شورشِ حالات میں
دیکھنا یہ گھر بھی اک دن راستہ ہوجائے گا
سوشیل میڈیا کو سماج میں شعور بیدار کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ۔ سوشیل میڈیا کے ذریعہ عوامی مسائل کو موضوع بناتے ہوئے حکومتوں کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے ۔ اسے سماج سدھار کیلئے بھی ایک بہتر ذریعہ قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ عوام اپنی رائے کا اپنے طور پر کھل کر اظہار کرتے ہوئے توجہ حاصل کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ برسوں میںدیکھا گیا ہے کہ سوشیل میڈیا کا مثبت کی بجائے منفی استعمال زیادہ ہونے لگا ہے ۔ اس کے ذریعہ جہاںجھوٹ پھیلایا جا رہا ہے اور نفرتوں کو ہوا دی جا رہی ہے وہیںسماج میںفرقہ پرستی کا زہر پھیلانے کیلئے بھی سوشیل میڈیا کا غلط اور بیجا استعمال ہو رہا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ خود سرکاری سرپرستی میں کئی سوشیل میڈیا چینلس ہیںجو سمام میںنراج کی کیفیت پیدا کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کو باضابطہ فنڈنگ بھی کی جاتی ہے ۔ جھوٹ پھیلانے کیلئے سوشیل میڈیا کارکنوں کو تنخواہ ادا کرتے ہوئے کام لیا جاتا ہے ۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے یا فرضی پروپگنڈہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں یہ بھی دیکھنے میںآیا ہے کہ سوشیل میڈیا پر مجرمین اور گینگسٹرس کی مدح سرائی ہونے لگی ہے ۔ یہ نہیںدیکھا جا رہا ہے کہ یہی وہ گینگسٹرس ہیں جو سماج میںقتل و خون کے ذمہ دار ہیں اور ان کی وجہ سے زندگیاں اجڑرہی ہیں۔ چند دن قبل ممبئی میںسابق وزیر مہاراشٹرا و این سی پی لیڈر بابا صدیقی کے قتل کے بعد سے دیکھا جا رہا ہے کہ سوشیل میڈیا کے کچھ گوشوں کی جانب سے گینگسٹر لارینس بشنوئی کی ستائش ہونے لگی ہے ۔ اسے ایک مخصوص فرقہ کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور دوسروں کو اس کے نام کا سہارا لیتے ہوئے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود نفاذ قانون کی ایجنسیاںاس معاملے میںکوئی حرکت کرتی نظر نہیںآ رہی ہیں۔ وہ ایسا لگتا ہے کہ اس تعلق سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں اور نفرت اور جھوٹ پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ دے رہی ہیں۔ گینگسٹرس اور مجرمین کی مدح سرائی کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے ۔
گینگسٹر لارینس بشنوئی کو ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہوئے اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے بلکہ دھمکانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لارینس بشنوئی کو ایک انداز سے قوم پرست قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نوی ممبئی پولیس کی جانب سے لارینس بشنوئی کے خلاف اداکار سلمان خان کے گھر کے باہر فائرنگ کے مقدمہ میںچارچ شیٹ پیش کی گئی ہے ۔ اسے کرایہ کا قاتل قرار دیا گیا ہے ۔ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ سلمان خان کو قتل کرنے کیلئے اسے 25 لاکھ روپئے کی سپاری دی گئی تھی ۔ یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ لارینس بشنوئی اور اس کی گینگ کے ارکان پاکستان اور دوسرے ممالک سے عصری ہتھیار خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پہلو پر کوئی بھی غور و فکر کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اگر کوئی پاکستان سے ہتھیار خریدتا ہے اور ہندوستان میںقتل و خون کا بازار گرم کرتا ہے تو وہ قوم پرست نہیں بلکہ قوم دشمن ہی کہلاتا ہے کیونکہ ایسے ہی عناصر کی پاکستان پشت پناہی کرتا ہے ۔ یہ کوئی عام نوعیت کا الزام نہیں ہے بلکہ یہ حقائق نوی ممبئی پولیس کی جانب سے عدالت میںپیش کی گئی چارچ شیٹ میںکئے گئے دعوے ہیں ۔ اس کے باوجود کچھ مفاد پرست عناصر محض ایک بابا صدیقی کے قتل پر خوشیاں منانے کیلئے لارینس بشنوئی کی مدح سرائی کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ یہ انتہاء درجہ کی بیمار ذہنیت کی عکاسی ہے اور اس کے ذریعہ ملک میں بھی نراج کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے ۔ پولیس اور دوسری ایجنسیوں کو اس کا نوٹ لینا چاہئے ۔
ویسے تو کچھ مخصوص فرقہ رپست گوشے مجرمین کی گلپوشی کرنے اور ان کا جیلوں سے رہائی پر استقبال کرنے میںشہرت رکھتے ہیں۔ چاہے وہ گجرات ہو یا پھر کرناٹک ۔ کرناٹک میں گذشتہ دنوں صحافی گوری لنکیش کے قتل کے ملزمین کی ضمانت پر رہائی کے بعد ہندو تنظیموں کی جانبس ے جیل کے باہر ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور ان کی گلپوشی کی گئی تھی ۔ یہ ذہنیت سماج کیلئے ناسور سے کم نہیں ہے ۔ ایسی ذہنیت رکھنے والے کھلے عام مجرمین کی مدح سرائی سوشیل میڈیا پر کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے والے عناصر کا پتہ چلاتے ہوئے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے اور انہیںکیفر کردار تک پہونچایا جانا چاہئے ۔