سونم وانگ چوک کی گرفتاری

   

جہاں بھی بات آئے حق پسندوں کے مسائل کی
تو ہم صادقؔ بڑی جرأت سے اکثر بات کرتے ہیں
ماحولیاتی کارکن سونم وانگ چوک کو بالآخر گرفتار کرلیا گیا ۔ یہ گرفتاری آج دن میں ڈھائی بجے ہوئی جبکہ وہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے تھے ۔ ان کے میڈیا سے خطاب سے عین قبل لداخ پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا اور ان کے خلاف انتہائی سخت ترین قومی سلامتی ایکٹ لاگو کرنے کے اشارے ملے ہیں۔ گرفتاری سے قبل مرکزی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ سونم وانگ چوک 24 ستمبر کو پیش آئے تشدد کیلئے ذمہ دار ہیں جس میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے اور کئی دوسرے زخمی ہوگئے تھے ۔ وانگ چوک پر نوجوانوں کو تشدد کیلئے اکسانے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے ۔ گرفتاری کے بعد وانگ چوک کو کسی نامعلوم مقام کو منتقل کردیا گیا ۔ اس طرح مرکزی حکومت کی جانب سے لداخ میں پیش آئے تشدد کے واقعات کے بعد کارروائی ہوئی ہے اور حسب روایت گرفتاری اور مقدمہ کے اندراج پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے ۔ جس طرح سے لداخ کے عوام نے احتجاج کیا تھا اور ان کے جو مطالبات ہیں ان پر بات چیت کرنے اور نوجوانوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے صورتحال کو بہتر بنانے سے زیادہ طاقت کے استعمال کو ہی بہتر سمجھا گیا ۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو قانون کے تحت کسی کو گرفتار کرنے اور مقدمہ درج کرتے ہوئے عدالتوں سے رجوع کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے تاہم جمہوریت میں عوام کو بھی اپنے مطالبات منوانے کیلئے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے احتجاج کرنے کا بھی حق حاصل ہے ۔ ایسے میں حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ بات چیت کا راستہ اختیار کرتی ۔ جن افراد نے تشدد برپا کیا تھا ان کے خلاف کارروائی ضرور کی جائے تاہم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بات چیت کے ذریعہ اعتماد میں لیا جاسکتا تھا ۔ انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے جو حل دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی تو وہ دیرپا ہوتی ۔ سونم وانگ چوک اور ان کے ساتھی جو مطالبات کر رہے ہیں ان پر مرکزی حکومت نے پہلے بھی غور کرنے کا تیقن دیا تھا ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان مطالبات کو یکسر مسترد کردیا گیا ہو ۔ حکومت نے اس پر بات چیت سے کی تھی اور مزید بات چیت کے دریعہ حالات کو بہتر بنایا جاسکتا تھا ۔
سونم وانگ چوک ماحولیاتی کارکن ہیں۔ وہ لداخ کو علیحدہ ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ قبائلی حقوق کی بات کر رہے ہیں اور مقامی افراد کو ملازمتوں میں تحفظات فراہم کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ بظاہر ان مطالبات میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت اس کے متعلق غور کرتے ہوئے ان کا حل دریافت کرسکتی ہے ۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ کسی بھی مسئلہ کا حل بات چیت کے ذریعہ ہی ممکن ہے تو ان مسائل کا حل بھی بات چیت کے ذریعہ ہی دریافت کیا جاسکتا تھا ۔ مقدمات کے اندراج اور سونم وانگ چوک کی انتہائی سخت دفعات کے تحت گرفتاری سے غلط پیام جاسکتا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ عوامی جذبات اور توقعات کو حکومت طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہمارے سماج میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی ہونی چاہئے ۔ جس طرح مرکزی حکومت نے تشدد ترک کردینے کی نوجوانوں سے اپیل کی تھی اسی طرح سونم وانگ چوک نے بھی نوجوانوں سے تشدد سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ اس کے باوجود جو تشدد برپا ہوا ہے وہ افسوسناک ہے اور تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بھی حق بجانب ہے ۔ تاہم سارے مسئلہ کا حل گرفتاری یا مقدمات کے اندراج ہی میں مضمر نہیں ہے ۔ اس کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاسکتا تھا اور اب بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اعتماد سازی کے اقدامات کرتے ہوئے حالات کو بگڑنے سے بچایا جاسکتا تھا تاہم ایسا نہیں کیا گیا ۔
کچھ گوشوں کی جانب سے وانگ چوک کی گرفتاری کی مذمت کی جا رہی ہے ۔ چیف منسٹر جموں و کشمیر نے بھی اس کی مذمت کی ہے ۔ اب جبکہ مرکزی حکومت نے یہ کارروائی شروع کر ہی دی ہے اور قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جارہا ہے تب بھی حکومت کو لداخ کے نوجوانوںکے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ مقامی جذبات اور عوامی احساسات کو سمجھتے ہوئے مسئلہ کا حل دریافت کیا جانا چاہئے ۔ کسی کو جیل میں بند کرکے عوامی جذبات کو قابو میں نہیں کیا جاسکتا ۔ جہاں تشدد پر قابو پانا ضروری ہے وہیں حکومت کو فراخدلانہ رویہ اختیار کرنے اور اعتماد سازی کے اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔