جونپور، یکم جولائی (یو این آئی) جونپور ضلع کے مچھلی شہر کے زری امام باڑہ میں رکھا سونے سے جڑا تعزیہ نہ صرف اتر پردیش بلکہ پورے ملک میں شہرت رکھتی ہے ۔اس تعزیہ سے ہندو اور مسلم برادریوں کا عقیدہ وابستہ ہے جس کی وجہ سے اس تعزیہ کو فرقہ وارانہ اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ محرم کے دوران ہی لوگوں کو تعزیہ و علم اور سنہری حروف والا قرآن دیکھنے کو ملتا ہے ۔ امام باڑہ کے متولی سید قمر رضا نے منگل کے روز میڈیا کو بتایا کہ 1857 کی بغاوت کے دوران لکھنؤ کے شیعہ نواب واجد علی شاہ نے انگریزوں کی نظروں سے بچانے کے لیے اس نایاب سونے سے جڑا تعزیہ کو تابوت میں ڈال کر دریائے گومتی میں سپرد آب کر دیا تھا۔ مقامی رہائشی علی ضامن زیدی اس وقت پرتاپ گڑھ ضلع میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر تعینات تھے ۔ وہ اس تاریخی ورثہ کو حاصل کر کے جونپور ضلع کے مچھلی شہر قصبہ کے خانزادہ محلہ میں واقع زری امام باڑہ لے آئے اور اسے محفوظ مقام پر رکھ دیا۔ اس کے ساتھ سنہری حروف والا قرآن بھی ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کئی لوگوں نے صدیوں سے محفوظ اس قیمتی کتاب اور ورثہ کو حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن امام باڑہ کے متولی مرحوم غلام حسنین نے دینے سے انکار کردیا۔متولی غلام حسنین کی وفات کے بعد سید قمر رضا موجودہ متولی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ محرم کے دوران ہندو اور مسلمان یہاں رکھے ہوئے سونے سے جڑے تعزیہ پر جاتے ہیں اور مراد مانگتے ہیں اور خواہش پوری ہونے پر چاندی کا گھنگھرو چڑھاتے ہیں۔ محرم کے دوران لوگ پوری رات عبادت کرتے ہیں اور انجمن سجاریاں کے ذریعہ نوحہ و سینہ زنی کرتے ہے ۔ ملک اور بیرون ملک سے لوگ یہاں سونے سے جڑے تعزیہ کو دیکھنے آتے ہیں۔