سید خلیل احمد ہاشمی
آپؒ کے اسم گرامی محمد عطاء لقب قاضی حمید الدین ،سُلطان التارکین صوفی سعید ناگوری کے نام سے مشہور تھے۔ آپؒ کے والد ماجد حضرت عطاءاللہ محمود بخاریؒ سلطان شہاب الدین غوری کے عہدِ حکومت میں کرمان سے ہندوستان تشریف لائے تھے ۔ آپؒ کی ولادت ۵۸۹ ہجری میں ہوئی۔ سلطان غوری نے ۱۱۲۹ء میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دیکر جب دہلی پر اپنی فتح کا پرچم لہرایا اس کے بعد مسلم گھرانوں میں جو بچہ سب سے پہلے پیدا ہوا وہ صوفی حمیدالدین ناگوریؒ تھے۔ آپؒ کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ حسینی سیدہ تھیں۔ آپؒ کی والدہ محترمہ بھی اپنے زمانے کی نہایت بزرگوار ، صالح، نیک اور پاکباز خاتون تھیں۔
آپؒ کی ابتدائی تعلیم آپؒ کے والد محترم کی سرپرستی میں ہوئی۔ بعدہٗ آپ کے استاذ مولانا شمس الدین حلوائی تھے جن سے آپ نے علوم شریعت وطریقت کا وافر حصہ اور درجۂ کمال حاصل کیا۔ انہوں نے مولانا حلوائی کے علاوہ شیخ حمیدالدین خوئی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے بھی استفادہ کیا۔ یوں تو انہوں نے کئی خدارسیدہ بزرگان دین کی صحبت اُٹھائی اور علوم ظاہری وباطنی حاصل کئے۔صوفی علیہ الرحمہ ایک نہایت حسین وجمیل نوجوان تھے اور آپ پر خلق خدا فریفتہ تھی۔ ایک مرتبہ خواجہ غریب نوازؒ بیٹھے ہوئے تھے اور صوفی حمیدالدین ؒجارہے تھے جیسے ہی خواجہ غریب نوازؒ کی نظر صوفی حمیدالدینؒ کے جمال باکمال پر پڑی آپ نے فرمایا سبحان اللہ اگر تو میرے پاس آجائے تو حق تعالیٰ بھی تیرے جمال پر عاشق ہوجائے۔ چنانچہ اسی وقت تائب ہوکر آپؒ خواجہ غریب نوازؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے بعد جس شخصیت کو سب سے زیادہ خواجہ معین الدین چشتیؒ سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا وہ صوفی حمیدالدین ناگوریؒ تھے۔ آپؒ برسوں خواجہ صاحبؒ کی خدمت میں رہے اور روحانی فیض اٹھاتے رہے۔ آپؒ نے ایک لمبی مدت تک ریاضت ومجاہدے کئے۔ آپؒ کی صحبت میں رہ کر تصوف و معرفت کے راز ہائے سربستہ کا مشاہدہ کیا اور عشق الٰہی سے اپنے سینے کو منور کیا یہاں تک کہ آپ غریب نوازؒ کے منظور نظر ہوگئے۔اور اس کے بعد خواجہ ؒنے خرقہ خلافت عطا کیا۔ اپنے مرشد کے حکم سے ناگور گئے جہاں بندگان خدا کی خدمت میں مصروف رہے۔
لقب سلطان التارکین: ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ خواجہ غریب نوازؒ نے بحالت خوشی حاضرین سے دریافت کیا کہ جو کچھ مانگناچاہتے ہو مانگو کیونکہ قبولیت کے دروازے کھلے ہوئے ہیںکسی نے دنیا اور کسی نے عقبیٰ کی درخواست کی ۔ صوفی حمیدالدینؒ نے عرض کیا کہ بندے کی کوئی خواہش نہیں ہے جو کچھ چاہیں مولیٰ تعالیٰ چاہیں۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے عرض کیا کہ بندے کو اختیار نہیں ہے جو حکم ہو آپؒ کو اختیار ہے۔ اس پر خواجہ غریب نواز نے فرمایا ”التارک من الدنیا والفارغ عن العقبیٰ الواصل بالمولیٰ سلطان التارکین حمید الدین صوفی“ اس طرح اس دن سے آپؒ کا لقب سلطان التارکین ہوگیا۔ خواجہ غریب نوازؒ نے قطب صاحب ؒکو دہلی اور آپؒ کو ناگور کی روحانی ولایت عطا کی، اسی وجہ سے آپؒ ناگوری کہلاتے ہیں۔ جب آپؒ ناگور تشریف لائے اس وقت آپؒ کی عمر چالیس برس تھی۔
آپؒ اپنے وقت کے ایک عالی مرتبت اور بلند نظر کثیراللسان عالم تھے انہیں عربی ،فارسی اور ہندی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپؒ کو مطالعہ کا بے حد ذوق وشوق تھا۔ قرآن پاک کی مختلف تفسیر یں اور مستند مشائخ کی تحریر کردہ حدیث کی بلند پایہ کتابیں آپؒ کے زیر مطالعہ رہتی تھی۔ آپؒ خود بھی کئی معتبر اور مستند کتابوں کے مصنف ہیں۔ تصوف وسلوک ،شریعت وطریقت تفسیر وحدیث فقہ اور علم الفرائض (میراث کے اسلامی قوانین) آپؒ کی دلچسپی کے خاص موضوعات تھے۔ آپؒ کے حق آگاہ قلم کی چند نگارشات کو آج بھی نہایت قدر کی نگاہوںسے دیکھا جاتا ہے ۔ سُلطان التارکین ؒ۲۹ ربیع الثانی ۶۷۳ھ کو اس جہانِ فانی کو الوداع کئے ۔ ناگور شریف راجستھان میں آپؒ کا آستانہ مبارک زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔