روش کمار
ملک میں بی جے پی کی زیر قیادت ریاستوں میں بلڈوزروں کا حد سے زیادہ استعمال کیا جارہاہے اور یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُتر پردیش سے اس خطرناک رجحان کا آغاز ہوا جس کی تقلید بی جے پی کی دوسری ریاستوں نے بھی کی، اس کے ذریعہ زیادہ تر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بلڈوزر انصاف کے خلاف سماجی و انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی آواز اُٹھائی ۔ یہاں تک کہ عالمی سطح پر بھی اس معاملہ میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اب بلڈوزر کے بیجا استعمال کو لیکر ہماری عدالت عظمیٰ ( سپریم کورٹ ) کا فیصلہ آچکا ہے لیکن عدالت کا یہ فیصلہ اُن کی سیاست پر سنگین سوال کھڑے کرتا ہے جو بلڈوزر کو اپنی سیاست کی پہچان بناتے رہے ہیں۔ اُس گودی میڈیا کی صحافت کو بھی غلط اور غیر اخلاقی ثابت کرتا ہے جو بلڈوزر کارروائی کی تائید وحمایت میں بہت آگے بڑھ گیا تھا۔ میڈیا کا کام حکومت کے کام پر سوال کرنا یہ دیکھنا کہ اُصول و قواعد بالخصوص قوانین کی پاسداری ہورہی ہے یا نہیں۔ آیا بلڈوزر قانونی طور پر چل رہا ہے یا نہیں ہے لیکن میڈیا نے حکومت کے اس مجرمانہ کارنامہ کو درست بتایا اور آپ کو بھی اس میں کس طرح سے شامل کیا ہم فیصلہ کی ہی بات کررہے ہیں، اس فیصلہ نے ساری سیاست کو غلط ثابت کردیا۔ ان عہدہ داروں کو بھی ایک طرح سے مجرمین کی قطار میں کھڑا کردیا ہے جو اس غلط و ناجائز سیاست کے ایجنٹ بن گئے تھے، ہم ان کے بارے میں بھی بات کریں گے لیکن یہ سب جو آپ دیکھ رہے ہیں اگر آپ گودی میڈیا کی بلڈوزر کی تائید و حمایت میں چلائی جانے والی مہم کا جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ ان چیانلوں نے کس طرح اس غیر قانونی و غیر انسانی اور غلط کارروائی کی تعریف و ستائش کی۔ ان چیانلوں نے ایسی سُرخیاں لگائیں، ایسے تھمب نیل بنائے جس میں کہا گیا یا لکھا گیا کہ ماما کا بلڈورزر اگلے سو دنوں کیلئے تیار، پھر نکلا بابا کا بلڈوزر، اس بار چن چن کر بلڈوزر گرج رہا ہے، آرہا ہے بابا بلڈوزر، بلڈوزر سے بچنا ناممکن، پھر چلا بابا کا بلڈوزر، بلڈوزر نے کیا ساری پارٹیوں کا گیم ختم، بابا کا بلڈوزر کیسے ہوا مشہور، ایک چیانل نے سرخی لگائی کہ سارے مسائل کا حل بلڈوزر، اسی چیانل کی ایک اور سرخی ’’نہ کچہری نہ کورٹ بلڈوزر سے چوٹ ‘‘ انگریزی میں بھی اس طرح کی سرخی لگائی گئی، بلڈوزر کو ایکشن سے جوڑا گیا کبھی انورٹیڈ کاما لگاکر تو کبھی سوالیہ نشان لگاکر گودی میڈیا نے بلڈوزر کو سیاست کا جائز حصہ بنانے کی کوشش کی۔ اسی گودی میڈیا نے عام ناظرین کے دل میں یہ جذبہ بٹھادیا کہ کسی کا جرم ثابت ہونے سے پہلے اس کا گھر منہدم کردینا، دکانات گرادینا، حکومت کا مضبوط ایکشن ہے خاص کر جب مجرم یا ملزم کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہو۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ ایکشن کے پیچھے کس طرح کی سیاست چل رہی ہے۔ کسی کا گھر کیسے دن دھاڑے بناء سنوائی کے گرادیا جارہا ہے۔
آپ ناظرین نے بھی غور نہیں کیا کہ جن کے گھر گرائے جارہے ہیں ان میں سے زیادہ تر مسلمان کیوں ہیں ؟ آپ کو بھی گودی میڈیا نے بلڈوزر کے اس غیر قانونی کھیل میں ڈھکیلا جسے سپریم کورٹ نے غلط اور غیر دستوری ثابت کردیا۔ یو پی کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کا شائد ہی کوئی یسا خطاب ہوگا جس میں وہ بلڈوزر کا ذکر نہ کرتے ہوں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ نے یو پی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی سیاست کی سب سے بڑی پہچان کو غلط اور غیر دستوری بتادیا۔ گودی میڈیا نے کھل کر یوگی آدتیہ ناتھ کو بلڈوزر بابا لکھا اور بی جے پی کے قائدین و کارکن بلڈوزر لیکر یوگی کے جلسوں میں خیرمقدم کرنے پہنچے۔ بلڈوزر کا استعمال اُتر پردیش سے شروع ہوتا ہے دوسری ریاستوں میں پہنچ جاتا ہے بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں۔ مدھیہ پردیش اور آسام میں بھی بلڈوزر کا بیجا و ناجائز استعمال کیا گیا۔
اس سلسلہ میں اُتر پردیش کے سابق چیف منسٹر اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ سب کو پتہ ہوگا کہ سپریم کورٹ نے کیا ریمارکس اور تبصرے کئے ہیں اور بلڈوزر جو اس حکومت کی علامت بن گیا تھا اس کے خلاف جو عدالت عظمیٰ نے تنقید کی ہے اور سپریم کورٹ نے جو لکیریں کھینچی ہیں وہاں کے جج صاحب انہوں نے فیصلہ کے سطور کو جو پڑھا اور جو انہوں نے بولا وہ کوئی بھی جمہوریت میں جو فیصلہ آیا ہے اس کو قبول کرے اور اس کیلئے مبارکباد دیتا ہوں۔ اس موقع پر حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں اور جو سطور بالا پڑھی ہیں انہوں نے جس طریقہ سے بلڈوزر کے ذریعہ گھر توڑا گیا تھا اس کے خلاف عدالت میں گئے اور اس کے خلاف جو فیصلہ آیا ہے ایسے کم فیصلے ہوتے ہیں جہاں حکومت کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت پر 25 لاکھ کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ نہ صرف جرمانہ عائد کیا ہے بلکہ ایسے قصوروار عہدہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے بھی کہا ہے جنہوں نے بلڈوزر چلا کر کسی کا گھر توڑنے کا کام کیا ہے۔ جو گھر توڑنا جانتے ہیں ان سے کیا اُمید کروگے آپ؟ جو گھر منہدم کرنے میں سیکنڈ نہ لیتے ہوں ان سے کیا اُمید کرتے ہو، کم سے کم آج کے بعد ان کا بلڈوزر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھڑا ہوجائے گا گیرج میں اور کسی غریب کا گھر منہدم نہیں ہوگا۔
بلڈوزر کا معاملہ کیوں عدالت پہنچا ، اس لئے پہنچا ریاست در ریاست بلڈوزر کے استعمال سے خاص کمیونٹی کے گھر گرائے جارہے تھے اس کے ذریعہ زیادہ تر مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا، ان میں ڈرو خوف پیدا کیا گیا اور دستور سے ملی دولت کے تحفظ کا حق و اختیار ایک طرح سے چھینا جارہا تھا، عدالت نے اپنے فیصلہ میں بناء نام لئے اُن باتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تب کورٹ پر بھی تنقید کی گئی کہ اتنے دنوں تک کیسے عدالت دیکھتی رہی۔ کیوں عدالت نے ازخود کاروائی کرتے ہوئے ہدایات جاری نہیں کی۔ دیر تو بہت ہوئی مگر سپریم کورٹ نے فیصلہ بہت ٹھوس دیا ہے اور اس کی سیاست کی جڑوں پر حملہ کردیا ہے۔ اپنے فیصلہ میں عدالت نے عہدہ داروں کو آگے کی کارروائی کیلئے جوابدہ بنادیا ہے۔ غنیمت ہے کہ عدالت نے پچھلے معاملوں سے اس فیصلہ کو لاگو نہیں کیا ورنہ مجرم ؍ ملزم بن چکے ان تمام عہدہ داروں کو اپنی جیب سے توڑے ہوئے گھر بنانے پڑتے اور معاوضہ دینا پڑتا۔ عدالت نے کہاکہ اگر من مانے طریقہ سے کسی کا گھر گرایا گیا تو اسے سپریم کی توہین سمجھا جائے گا۔
بی ایس پی کی لیڈر مایاوتی نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے بلڈوزر کارروائی سے جڑے فیصلہ اور سخت رہنمایانہ ہدایات کے بعد یہ اُمید کی جانی چاہیئے کہ یو پی اور دیگر ریاستی حکومتیں ان ہدایات پر سنجیدگی سے عمل آوری کریں گی اور بلڈوزرکا ڈر و خوف اور دہشت ضرور ختم ہوگی۔ اتنی چاق و چوبند باالفاظ دیگر واضح ہدایات سپریم کورٹ نے جاری کردیں کہ دیر سے ہی سہی انصاف ہوا لیکن جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے بی وشواناتھن کی بنچ نے اس معاملہ میں بہت بڑی لکیر کھینچ دی ہے۔ آگے سے جب بھی آپ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کا اس طرح کا بیان سُنیں‘ یاد رکھیں کہ بلڈوزر کے استعمال کو لیکر سپریم کورٹ نے کیا کہا ہے۔ یوگی کو بلڈوزر کے غیر دستوری استعمال پر بڑا فخر ہے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں اس معاملہ پر بڑی بڑی باتیں کی ہیں‘ وہ کہتے ہیں ’’سال 2017 کے بعد جب یو پی کے بلڈوزر نے چلنا شروع کیا تو آج آپ دیکھتے ہو کہ وہ لوگ اُتر پردیش کی دھرتی کو چھوڑ چکے ہیں، کچھ تو جیل میں ہیں اور کچھ تو رام رام ستیہ ہے کی یاترا پر بھی چلے گئے ہیں۔ گاؤ مافیا، لینڈ مافیا بھی نہیں یہ مافیا، جانور مافیا بھی نہیں ہر قسم کا مافیا آج تو کوئی بھی مافیا ہو شراب مافیا ہو یا دوسرا مافیا یوپی سے غائب ہوگیا ہے۔ ایسے غائب ہوگیا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگھ غائب ہوگیا ہو۔ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ پر بات کررہے ہیں لیکن یہ بھی یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے دس برسوں میں یہ پہلی بار نہیں ہے کہ عدالت نے ان مسائل کو غیر دستوری قرار دیا جس کی سیاست کے تار بی جے پی سے جڑتے رہے۔
عدالت نے ان فیصلوں کو غیر دستوری قرار دیا جو بی جے پی اور مودی حکومت کے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی جس الیکٹورل بانڈ کو سیاست میں رشوت خوری اور بدعنوانی مٹانے کا منتر بتارہے تھے وہ فیصلہ غلط اور غیر دستوری ثابت ہوا ۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو لیکر بی جے پی کی یہی سیاست رہی کہ AMU اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے 1967 کے اپنے ہی فیصلہ کو پلٹ دیا اور ایک طریقہ کار طئے کردیا کہ کس بنیاد پر طئے ہوگا کہ کوئی ادارہ اقلیتی ہے یا نہیں ؟ بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی طور منہ کالا کرنے والوں کو وزارت داخلہ کے حکم پر وقت سے پہلے جیل سے نکالا گیا بعد میں سپریم کورٹ نے پورے عمل کو غلط قرار دیا۔ چندی گڑھ میں میکئر کے انتخاب کو بی جے پی نے کس طریقہ سے جیتا، سپریم کورٹ نے اُسے بھی غلط قرار دیا اور کہا کہ یہ دستور کا قتل ہے۔ کشمیر میں انٹرنیٹ کو غیر معینہ مدت کیلئے بند کرنے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بتایا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جنوری 2020 میں ہجومی تشدد روکنے کیلئے سپریم کورٹ نے واضح طور پر رہنمایانہ خطوط جاری کئے۔ اس کے پیچھے کی سیاست کون کرتا تھا، اس کا کس کو فائدہ ہورہا تھا آپ کو بار بار نام لیکر بتانے کی ضرور ت نہیں۔ ہجومی تشدد میں شامل ہونے والے جب جیل سے ضمانت پر باہر آئے تھے تب مٹھائی کون کھلاتا تھا، مالا کو ن پہناتا تھا؟ ہزاری باغ کے سابق رکن پارلیمنٹ سابق مرکزی وزیر بی جے پی لیڈر جینت سنہا کی تصویر تو آپ نے دیکھی ہی ہوگی۔ مودی نے بھی بلڈوزر کارروائی کی یہ کہتے ہوئے حمایت کی تھی کہ ذرا یوگی جی سے ٹیوشن لو کہ بلڈوزر کہاں چلانا اور کہاں نہیں چلاناہے؟۔
پچھلے سات برسوں سے بی جے پی اور گودی میڈیا نے بلڈوزر کی سیاست کو فروغ دیا اسے آگے بڑھایا ہے، انتخابی مسئلہ بنایا اسے سیاست کے ایک ٹھوس ماڈل کی شکل میں کھڑا کیا، بے قصوروں اور ان افراد کے خلاف بلڈوزر چلانے کی بات کی گئی جن کے مقدمات زیر دوراں ہیں۔آئی ٹی سل نے تحریک چلائی ٹوئٹر پر لوگوں نے بلڈوزر چلانے کی مانگ کی، بلڈوزر چلانے پر جشن منایا ، ان سبھی کو سپریم کورٹ نے غیر دستوری قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس سیاست کے علاوہ ان غریب لوگوں کو بھی راحت دی ہے جو مسلمان بھی ہیں اورہندو بھی ہیں جن کے مکانات کو راتوں رات بلڈوزروں سے ڈھادیا جاتا، کبھی وہاں پارک بنانے کیلئے اور کبھی پتہ بھی نہیں چلتا کہ غریبوں کا گھر گرا کر کس دولت مند کو دیا جانے والا ہوتا ہے۔ 2022 سے لیکر اب تک دیڑھ لاکھ مکانات غلط طریقہ سے گرائے گئے ہیں۔’ فرنٹ لائن ‘میں رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ 7.5 لاکھ لوگ بے گھر کردیئے گئے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلہ سے بلڈوزر کے فرقہ پرستانہ اور غیر دستوری استعمال پر روک لگادی۔