ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے ۔ ملک کے دستور میں سکیولرازم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں سب نے ملک کے سکیولر کردار کو برقرار رکھا ہے ۔ ملک کے سکیولر کردار کی برقراری در اصل ملک کے دستور کو من و عن قبول کرنے کے مترادف ہے ۔ حالیہ کچھ وقتوں سے ملک کے دستور اور سکیولر ازم کے تعلق سے مختلف گوشوںسے ناقدانہ تبصرے ہونے لگے ہیں۔ کئی لوگ ملک کے دستور کو تبدیل کرنے کی بات کرنے لگے ہیں۔ کئی چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنادیا جائے ۔ کوئی چاہتا ہے کہ ملک کے سکیولر کردار کو ختم کردیا جائے ۔ یہ ساری باتیں در اصل ملک کے دستور کو عملا مسترد کرنے کے مترادف ہیں۔ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں ان کو روکنے کی کسی گوشے کی جانب سے کوشش نہیں کی گئی تھی ۔ اب ملک کی ایک ریاست کے گورنر نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ سکیولرازم مغربی اصطلاح ہے اور اس کی ہندوستان میں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ بیان ایک دستوری اور ذمہ داری عہدہ پر فائز شخصیت کی جانب سے دیا گیا ہے ۔ گورنر ٹاملناڈو مسٹر این روی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی ۔ انہوں نے سکیولرازم کو ہندوستان کیلئے ضروری قرار نہیںدیا ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ سکیولرازم کا لفظ ملک کے دستور میں شامل ہے ۔ سکیولرازم سے اختلاف در اصل ملک کے دستور سے اختلاف کے مترادف ہے ۔ گورنر ہوں یا کوئی اور عہدہ پر کوئی فائز کیوں نہ ہو سب کیلئے ملک کے دستور اور قانون کی پابندی لازمی ہے ۔ اگر دستوری عہدہ پر فائز رہتے ہوئے بھی اس طرح کے بیانات دئے جائیں تو دستور کی اہمیت پر اور اس کی افادیت پر سوال کرنے کے مترادف ہوگا ۔ گورنر ٹاملناڈو کے بیان سے ایک تنازعہ پیدا ہوگیا اور اپوزیشن جماعتوں نے اس پر تنقید کرتے ہوئے انہیںنشانہ بنایا ہے ۔ بات صرف سیاست کرنے کی یا سیاسی طور پر نشانہ بنانے کی نہیں ہے ۔ یہ مسئلہ ملک کے دستور کی اہمیت سے متعلق ہے اورا س کو دستور کی اہمیت کو ہی پیش نظر رکھتے ہوئے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو اکثر و بیشتر اس کے کچھ قائدین کی جانب سے دستور تبدیل کرنے کی باتیں بھی کی گئی ہیں۔ سکیولرازم کو مسترد بھی کیا گیا ہے اور یہی بات اب گورنر ٹاملناڈو بھی کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی سوچ اور نظریہ ہوسکتا ہے تاہم جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے تو اس کو اس مسئلہ پروضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی حکومت کی سفارش پر ہی صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے گورنرس کا تقرر کیا جاتا ہے ۔ مرکزی حکومت کو اس بیان کا نوٹ لینے کی ضرورت تھی لیکن حکومت نے حسب معمول اس انتہائی غیرمعمولی بیان کو بھی نظر انداز ہی کردیا ۔ اپوزیشن جماعتوںکو چاہئے تھا کہ وہ اس مسئلہ کا سخت نوٹ لیتے ہوئے حکومت کے علم میںلاتے ۔ مسلسل حکومت کو جھنجھوڑتے اور حکومت سے وضاحت کرواتے ۔ تاہم ایسا بھی نہیںکیا گیا ہے ۔ ملک کے دستور اور سکیولرازم سے کھلواڑ کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیںدی جاسکتی اور نہ ہی دی جانی چاہئے ۔ سیاسی نظریات کسی کے کچھ بھی ہوں لیکن ملک کے دستور کی پابندی سب پر لازمی ہے ۔ ملک میںجتنے بھی بڑے اور جلیل القدر عہدے ہیںوہ سب دستور ہی کی دین ہیں۔ اسی دستور میں جو گنجائش سکیولرازم کی فراہم کی گئی ہے اگر اس کو ہی مسترد کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ملک کے دستور سے کھلواڑ ہی کہا جائیگا ۔ اس طرح کی سوچ کو بدلنے کی اور روکنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی نظریات کو دستوری گنجائش پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
سکیولر نظریات ہندوستان کی ایک بہترین اور عظیم انفرادیت ہے ۔ ساری دنیا میں ہندوستان کا احترام اسی لئے ہے کیونکہ یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق اور درجہ دیا گیا ہے ۔ سب کے فرائض بھی مشترک ہیںاور سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے ۔ اگر سکیولرازم پر کسی دستورہ عہدہ سے ہی سوال کئے جانے لگیں تو یہ سکیولرازم تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اسے ملک کے دستور پرسوال ہی کہا جائیگا ۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے کا نوٹ لیتے ہوئے پوری وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ دستور کی بالادستی اور سکیولرازم کی اہمیت کو برقراررکھنے کیلئے مرکز کو اس پر وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔