سیاست دانوں کا سکیولر فریب

   

راج دیپ سردیسائی
سال 2018ء کے ایک میڈیا انکلیو یا ذرائع ابلاغ کے اجتماع میں شریک سونیا گاندھی نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اعتراف کیا تھا اور وہ اعتراف یہ تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کئی لوگوں کو اس بات پر قائل کرانے میں کامیاب رہی کہ کانگریس ایک ’’مسلم جماعت‘‘ ہے۔ سونیا گاندھی نے جس طرح یہ ریمارکس کئے تھے، اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ انہوں نے صاف صاف طور پر یہ بات قبول کرلی ہے کہ ہمارے ملک میں نہرو کا سکیولرازم سیاسی ہندوتوا کی بڑھتی لہر کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔
سونیا گاندھی کے اعترافی الفاظ کی تائید ہمیں اے کے انٹونی کمیٹی کی رپورٹ بھی دکھائی دیتی ہے۔ 2014ء کے انتخابات میں مودی کی زیرقیادت بی جے پی کے مقابلے کانگریس کی شکست کے بعد ہندوستان کی اس قدیم سیاسی جماعت نے اے کے انٹونی کی قیادت میں کانگریس کی ناکامیوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی اور اس کمیٹی نے بھی ایک مسودہ تیار کیا۔ حالانکہ اسے برسرعام نہیں کیا گیا، اس کے باوجود رپورٹ میں سونیا گاندھی کے اعترافی بیان کی تائید و حمایت کی گئی اور کہا گیا کہ کانگریس کو عام انتخابات میں موافق مسلم اور مخالف ہندو پارٹی کی حیثیت سے دیکھا گیا۔ اس کے تین سال بعد کانگریس کی جو بری حالت ہوئی، اس سے پھر ایک مرتبہ پارٹی کی سکیولر شناخت پر سوالات اُٹھنے لگے اور یہ سوالات اس لئے اٹھائے گئے کیونکہ کانگریس نے مسلم سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ جہاں تک کیرالا جیسی ریاست کا سوال ہے، وہاں کانگریس نے برسوں سے انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کے ساتھ اتحاد کر رکھا ہے اور فی الوقت اس اتحاد کو حکمراں بائیں بازو کا محاذ اور بی جے پی نشانہ بنا رہی ہیں اور ان دونوں کا یہی کہنا ہے کہ کانگریس مسلم لیگ کے مفادات کا تحفظ کررہی ہے۔ اسی طرح آسام میں کانگریس نے ممتاز تاجر و سیاست داں بدرالدین اجمل کی آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے ساتھ مفاہمت کی ہے۔ اے آئی یو ڈی ایف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو ریاست میں مقیم بنگالی داں مسلم مہاجر آبادی کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔

دوسری جانب مغربی بنگال میں کانگریس، بائیں بازو کی زیرقیادت اتحاد کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ یہ اتحاد مجوزہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر تشکیل دیا گیا ہے جس میں ایک مسلم عالم دین عباس صدیقی کی جانب سے شروع کردہ نئی جماعت ’’انڈین سکیولر فرنٹ‘‘ (آئی ایس ایف) بھی شامل ہے۔ عباس صدیقی جس طرح کے بیانات دیتے ہیں اس سے سب واقف ہیں۔ اس اتحاد کے نتیجہ میں مغربی بنگال جیسی ریاست میں بی جے پی کو اس اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے اپنے ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کا ایک موقع مل گیا ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس قسم کے اتحادوں اور ان پر مختلف حلقوں بالخصوص بی جے پی کی جانب سے کئے جارہے ردعمل سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس شدید بحران کا شکار ہے اور یہ بحران بڑھتا جارہا ہے۔ قومی سطح کی سکیولر سیاست میں یہ بحران کانگریس میں ہی پایا جاتا ہے اور جو آج کل کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ کئی دہوں سے کانگریس میں پنپتا رہا اور اس وقت سے پنپ رہا ہے جب اندرا گاندھی نے دستور کی تمہید میں 1976ء کے دوران لفظ ’’سکیولرازم‘‘ شامل کیا تھا۔ ان کا وہ قدم دراصل اخلاقی یا اصولی سیاست پر مبنی نہیں تھا بلکہ انہوں نے اقلیتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور اپنے حق میں ان کے ووٹ مستحکم کرنے کیلئے اُٹھایا تھا۔ ان کا مقصد اس طرح کے قدم اٹھاتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں کو حاشیہ پر لانا تھا۔

کانگریس نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو عہدۂ وزارتِ عظمیٰ پر فائز کیا اور پھر یہ اعلان کیا کہ حکومت کے وسائل پر سب سے پہلا حق اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا ہے۔ ایک طرف اُس پالیسی کو کانگریس نے اختیار کیا اور دوسری طرف گجرات اسمبلی انتخابات سے پہلے راہول گاندھی نے مندر کا دورہ کیا اور ’ان کے‘ اس دورہ کے بعد پارٹی نے واضح طور پر کہا کہ راہول گاندھی ایک ’’جنیو دھاری ہندو‘‘ ہیں۔ اس طرح مذہب کو سیاسی شناخت کی ایک علامت کہتے ہوئے مسترد کرنے والی سکیولر طاقتیں اس سے دور ہوگئیں۔ یعنی ایک طرح سے سکیولر طاقتوں کو ایسے بیانات دیتے ہوئے خود سے دور کردیا۔ اب کانگریس اپنی ہی پالیسیوں کے نتیجہ میں چوراہے پر آگئی اور وہ ایسے مقام پر دکھائی دینے لگی جہاں اگر وہ کسی بھی قسم کے ہندو جذبات کا اظہار کرتی یا اپیل کرتی تو اسے بی جے پی کی B ٹیم کہا جاسکتا تھا یا پھر اکثریت کے حقوق کی بات کرنے والی حقیقی پارٹی کی کاربن کاپی قرار دیا جاسکتا تھا۔ ایسا ہی کچھ مدھیہ پردیش میں مختصر سے عرصہ اقتدار میں رہنے کے بعد زوال سے دوچار ہوئی کمل ناتھ حکومت نے کیااور بی جے پی سے قطع نظر خود اپنی ’’گائے سیاست‘‘ کا ورژن پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن اسے اپنی اس پالیسی کو کامیاب بنانے میں قابل لحاظ کامیابی نہیں ملی۔ دوسری طرف کانگریس نے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا اور ایسا لگتا ہے کہ اس نے عارضی، غیریقینی سیاسی فوائد طئے کر رکھے تھے۔ مثال کے طور پر مابعد شہریت ترمیمی قانون، کانگریس نے اے آئی یو ڈی ایف سے اتحاد کیا اور ہوسکتا ہے کہ اس اتحاد کے نتیجہ میں اسے زیریں آسام کی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوجائے، لیکن اب یہ بات بھی ناگزیر ہوگئی ہے کہ ریاست کے مابقی حصوں میں اس کے ردعمل کے طور پر ہندو ووٹ متحد ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح مغربی بنگال میں جہاں عوام کی رائے بہت ہی منقسم دکھائی دیتی ہے، کانگریس نے انڈین سکیولر فرنٹ سے اتحاد کیا ہے۔ آئی ایس ایف اور کانگریس کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس کے باوجود اس اتحاد سے ممتا بنرجی اور بائیں بازو کی زیرقیادت کانگریس ۔ آئی ایس ایف اتحاد کے درمیان مسلم ووٹ مزید تقسیم ہوں گے اور بی جے پی کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بائیں بازو کی جماعتیں جنہوں نے کیرالا میں انڈین یونین مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کیلئے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہیں، وہ خود اب مغربی بنگال میں ایک ’’مسلم سیاسی جماعت‘‘ کے ساتھ اتحاد پر مجبور ہوئی۔ یہ دراصل ایک سیاسی منافقت ہے، سکیولر جماعتوں کا پراجیکٹ سیاسی اور اخلاقی طور پر کمزور ہوا ہے۔ آج قومی سطح کی سکیولر پارٹیوں کا سکیولرازم جس ساکھ کے بحران سے دوچار ہوا ہے، افسوس اس سے سب سے زیادہ کوئی اور نہیں بلکہ اقلیتیں متاثر ہوئی ہیں۔ ہندوتوا بریگیڈ نے انہیں اپنی دروغ گوئی اور منافرت پر مبنی پالیسیوں و پروگراموں کے ذریعہ الگ تھلگ کرکے رکھ دیا ہے اور انہیں بدنام کرکے ان کی شبیہ بگاڑ دی ہے۔ یہاں تک کہ اقلیتوں کے جذبہ حب الوطنی پر انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ اس سے مسلمانوں میں ناراضگی اور احساس خوف پیدا ہوا ہے، سکیولر جماعتوں کے تئیں شکایتوں اور بے چینی کے نتیجہ میں یہ دیکھا گیا کہ مسلم نوجوان اسد الدین اویسی جیسے سیاست دانوں کی طرف مڑ رہے ہیں اور وہ اویسی جیسے لیڈروں کو مسلمانوں کا محافظ اور دفاع کرنے والے کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں گجرات کے مقامی اداروں کے انتخابات منعقد ہوئے جس میں اسد اویسی کی ایم آئی ایم نے گودھرا میں 8 نشستوں پر مقابلہ کیا اور 7 پر کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح مداسا ٹاؤن میں ایم آئی ایم اصل اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی۔ ان نشستوں پر ماضی میں کانگریس کامیاب ہوا کرتی تھی۔