سیاسی اتھل پتھل کا آغاز

   

تلنگانہ ابھی باضابطہ طور پر انتخابی بگل نہیں بجا ہے لیکن عملی طور پر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے انتخابی سرگرمیوںکاآغاز کردیا ہے ۔ کے سی آر نے اپنے 115 اسمبلی امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ ریاست کے مختلف اضلاع میں کلکٹریٹ دفاتر ‘ ایس پی دفاتر اور بی آر ایس دفاتر کا آغاز کرتے ہوئے وہ انتخابی مہم بھی عملا شروع کرچکے ہیں۔ جیسے ہی چندر شیکھر راو نے اپنے امیدواروں کی فہرست کا اعلان کیا ویسے ہی ریاست میں سیاسی اتھل پتھل کا آغاز ہوچکا ہے ۔ ویسے بھی گذشتہ چند ہفتوں سے تلنگانہ میںسیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی تھیں۔ کئی قائدین اپنے اپنے سیاسی مستقبل کیلئے غورو فکر کرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ ایک سے دوسری جماعت میںشمولیت کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا ۔ کئی قائدین بی آر ایس سے کانگریس میں۔ بی جے پی سے بی آر ایس میں اور کانگریس سے دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے لگے تھے ۔ تاہم جیسے ہی چندر شیکھر راو نے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کی ویسے ہی سیاسی اتھل پتھل میںتیزی آگئی ہے ۔ بی آر ایس کے جن ارکان اسمبلی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے ان میںناراضگی پیدا ہوگئی ہے ۔ رکن اسمبلی ریکھا نائک کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے لگے ہیں۔ ان کے شوہر پہلے ہی ریونت ریڈی سے ملاقات کرتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ دوسرے ارکان اسمبلی بھی اپنے اپنے مستقبل کے تعلق سے منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ بی جے پی کے بھی کچھ قائدین ہیں جو چاہتے ہیں کہ کانگریس میں شمولیت اختیار کریں۔ کانگریس کی جانب سے بھی اپنے امیدواروں کی فہرست تیار کی جا رہی ہے۔ فہرست کی تیاری سے قبل دوسری جماعتوں سے آنے والے قائدین کے تعلق سے بھی گنجائش رکھی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کی صفوں میں بھی اپنے قائدین کے تعلق سے بے چینی پیدا ہوچکی ہے اور وہ جہاں اپنے قائدین کو پارٹی کی صفوں میں برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں دوسری جماعتوںسے بھی کچھ قائدین کو پارٹی میں شامل کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے تو حکومت اور اقتدار میں رہنے کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے جہاں اپنے ناراض قائدین کو عہدوں اور نوازشات کا لالچ دیتے ہوئے پارٹی میں برقرار رکھا جا رہا ہے وہیں دوسری جماعتوں کے قائدین کو بھی کسی نہ کسی طرح کا لالچ دیتے ہوئے اپنی صفوںمیںشامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ سیاسی توازن کو برقرار رکھا جاسکے ۔ کئی قائدین ایسے بھی ہیں جو اب بھی اپنی اپنی جماعتوں میں موجود تو ہیں لیکن اپنے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ضرور ہیں اور وہ دوسری جماعتوں کے قائدین سے اپنی شرائط کو منوانے اور ٹکٹ کا تیقن حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ ابھی انتخابی بگل باضابطہ طور پر نہیں بجا ہے اس لئے بھی کچھ گوشوں میں سناٹا دکھائی دے رہا ہے لیکن در پردہ زبردست سرگرمیاں چل رہی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں۔ کون کس پارٹی میںموجود ہے اور کس پارٹی میں کب پہونچ جائے گا اس تعلق سے ابھی سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہوگا ۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس سیاسی اتھل پتھل کے اثرات انتخابات اور انتخابی نتائج پر ضرور دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ اب یہ سرگرمیاں کس نقطہ پر پہونچ کر ختم ہوتی ہیں اورا س کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں یہ تو انتخابات اورا س کے نتائج سے ہی پتہ چل سکتا ہے ۔ ریاست کے عوام کا جہاں تک سوال ہے وہ صورتحال پر ضرور نظر رکھے ہوئے ہیںاور وہ اپنے ووٹ کے تعلق سے ابھی سے کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے آخری وقت تک انتظار کریں گے ۔
تلنگانہ کی سیاست میں جو حالات پیدا ہونے لگے ہیں ان میں کوئی بھی جماعت مطمئن نظر نہیں آرہی ہے ۔ ہر جماعت کو جہاں اپنے کیڈر کے تعلق سے اندیشے لاحق ہیں وہیں دوسری جماعتوں کے تعلق سے بھی منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں۔ سیاسی بے چینی کی کیفیت ساری ریاست میں دیکھنے میںآرہی ہے ۔ کچھ جماعتیں خاموشی سے بھی اپنی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس صورتحال میں ریاست کے عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی سمجھ بوجھ اور بصیرت سے کام لیتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور جذباتیت کا شکار ہونے سے گریز کیا جائے ۔