سیاسی رقابت ترک کرنا ضروری

   

دیکھتا ہوں رقابتکب تک ڈراتی ہے مجھے
کل نئے سورج کو اپنے ساتھ لیکر آؤں گا
ہندوستان میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ سات مراحل میں رائے دہی ہوئی جس کیلئے شدت کے ساتھ مہم چلائی گئی ۔ ووٹ ڈالے گئے ۔ عوام نے بڑھ چڑھ کر رائے دہی میں حصہ لیا اور اپنی رائے کا اظہار کردیا ۔ ووٹوںکی گنتی بھی ہوگئی ۔ نتائج کا اعلان ہوگیا ۔ این ڈی اے کو ایک بار پھر اقتدار حاصل ہوا ہے حالانکہ پہلے سے کم ووٹ اور پہلے سے کم نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ بی جے پی کی عددی طاقت بھی کم ہوگئی ہے ۔ اب اسے اقتدار کیلئے حلیف جماعتوں کے سہارے کی ضرورت پڑ گئی ۔ بی جے پی نے اس سہارے کی مدد سے مرکز میں حکومت بنالی ہے ۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے حلف بھی لے لیا ہے ۔ انتخابی مہم کا جہاں تک سوال ہے تو یہ انتہائی منفی انداز سے چلائی گئی ۔ انتہائی جارحانہ تیور کے ساتھ اخلاقی حدود کو پھلانگنے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ مخالفین کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا ا ور ایسے ایسے ریمارکس کئے گئے جن کی مہذب سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ وزیر اعظم نے خود انتخابی مہم کے دوران جس طرح کی تقاریر کی ہیں ان پر سارے ملک میں ناراضگی پیدا ہوگئی تھی ۔ کئی گوشوں نے اس کی مذمت بھی کی تھی اور کہا تھا کہ بحیثیت وزیر اعظم ہند نریندر مودی کو اس طرح کی بیان بازیاں نہیںکرنی چاہئے تھیں۔ انتخابی عمل کے دوران جس طرح سے سیاسی جماعتوںا ور قائدین نے ایک دوسرے کے خلاف ریمارکس کئے تھے وہ انتہائی افسوسناک بھی تھے ۔ امیدواروں نے بھی ایک دوسرے کے خلاف ریمارکس کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ انہوں نے عوامی مسائل سے زیادہ شخصیت کو نشانہ بنانے پر توجہ دی تھی جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ بہر حال ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور نئی حکومت تشکیل بھی پا گئی ہے ۔ ایسے میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ دیا جائے ۔ سیاست کو مزید ایک دوسرے کے تعلق سے زہر اگلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ اب ملک و قوم کی ترقی پر توجہ کرتے ہوئے کام کا نئے سرے سے آغاز کیا جانا چاہئے تاکہ عوام کی توقعات کو پورا کیا جاسکے ۔
گذشتہ دو معیادوں کے برخلاف بی جے پی کو ایوان میں اپنے بل پر اکثریت حاصل نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کے سہارے پر چلنے والی حکومت بن گئی ہے ۔ ساتھ ہی اپوزیشن گذشتہ دو معیادوں میں جس قدر کمزور دکھائی دے رہا تھا اب اتنا کمزور نہیں رہا ہے اور اپوزیشن کی صفوں میں بھی استحکام دیکھنے کو ملا ہے ۔ اس کے ارکان کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ کانگریس کے ارکان کی تعداد تقریبا دوگنی ہوگئی ہے ۔ سماجوادی پارٹی کی عددی طاقت بہت بہتر ہوگئی ہے اور اس نے ایوان میں اپنے لئے خاصی جگہ بنالی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن پر یقین ہے کہ وہ حکومت کو عوامی مسائل پر ٹوکنے سے گریز نہیںکریں گی ۔ عوام کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے حکومت سے مسلسل اصرار کرتی رہیں گی اور ایوان میں جس طرح سے حکومت گذشتہ دو معیادوں میں من مانی کرتی رہی ہے اور ایوان کی روایات کو بھی بالائے طاق رکھا گیا تھا اب اس کا موقع نہیں دیا جائیگا ۔ اہم ترین مسائل پر قانون سازی اگر کی جائے گی تو اس پر ایوان میں مباحث کروانے پر حکومت مجبور ہوسکتی ہے جبکہ ماضی میں حکومت نے محض ندائی ووٹ سے کئی اہم قوانین منظور کئے ہیں۔ اس طرح کے اڈھاک فیصلے کرنے کی اب نریندر مودی کو کھلی چھوٹ نہیں رہے گی ۔ انہیں اب اپنے حلیفوں کے مزاج اور ان کے سیاسی مفادات کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنا پڑے گا ۔
انتخابی نتائج نے ہر جماعت کو اپنی اپنی طاقت کے مطابق جگہ دیدی ہے ۔ اب ان جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مسئلہ پر سیاست کرنے کا سلسلہ بند کریں۔ خاص طور پر حکومت کو اب اپنے طرز کارکردگی میں تبدیلی لانی چاہئے ۔ اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرنا چاہئے ۔ اس کی رائے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ قوم کی ترقی اور تعمیر کے کام کو سیاست کی نذر نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ہر جماعت اور ایوان کے ہر رکن کو ملک کو مستحکم بنانے اور ترقی کی راہ پر مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے کیلئے اپنی جانب سے سیاسی خطوط سے بالاتر ہوتے ہوئے ہر ممکن تعاون پیش کرنا چاہئے ۔ یہی وقت کا تقاضہ ہے ۔