سیاسی زندگی میں تنقیدیں

   

برق نے گرکے نشیمن پہ کرم فرمایا
ورنہ ممکن نہ تھا گلشن میں اُجالا ہونا
سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کسی کو بھی تنقیدوں اور تعریفوں دونوں ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کبھی کسی پالیسی یا فیصلے کی بنیاد پر شدید مخالفت کی جاتی ہے تو کبھی کسی فیصلے کی تائید و حمایت بھی کی جاتی ہے ۔ کبھی خود اپنوں سے تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کبھی کسی غیرمتوقع گوشے کی ستائش کی بھی سوغات ملتی ہیں۔ ہندوستان کی سیاست بھی اس روش سے مستثنی نہیں ہے ۔ سیاست میں اختلافات ہوتے ہیں اختلاف رائے ہوتا ہے اور یہ محض سیاسی پالیسیوں اور فیصلوں کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ اس میں کسی طرح کی شخصی دشمنی یا مخالفت نہیں ہوتی ۔ ہندوستان میں خاص طور پر یہ روش رہی کہ سیاسی مخالفت اور اختلاف رائے کا بھی احترام کیا جاتا رہا ہے ۔ سیاسی مخالفت کی عزت کی جاتی تھی اور انہیں دشمن نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ تاہم گذشتہ تقریبا ایک دہے سے دیکھا جا رہا ہے کہ سیاسی مخالفین کی شخصی کردار کشی کی جارہی ہے ۔ ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ انہیں دشمن کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور حکومت کی مخالفت پر ملک دشمن تک قرار دینے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ روش افسوسناک ہے ۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے کانگریس قائدین کے خلاف اس طرح کے ریمارکس اور تبصرے کئے جاتے رہے ہیں جن کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ اس کے علاوہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کے خلاف انتہائی ناشائستہ اور نازیبا ریمارکس بھی عام بات ہوگئی ہے ۔ اسی طرح کانگریس کی جانب سے بی جے پی قائدین اور وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقیدیں کی جاتی ہیں۔ جو سیاسی تنقیدیں ہیں وہ اخلاقیات کے دائرہ میں رہ کر کی جانی چاہئیں ۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ ان تنقیدوں پر بھی دوہرے معیارات اختیار کئے جا رہے ہیں اور تنقیدیں کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے خود کو مظلوم بناکر پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ملک کے وزیر اعظم کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو ملک کے تمام شہریوں کے نمائندے کے طور پر اپنے اخلاق اور کردار سے عملی نمونہ پیش کرین کی ضرورت ہوتی ہے تاہم اس کے برخلاف رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔
وزیر اعظم کے خلاف کانگریس کی تنقیدوں میں بھی شدت پیدا ہوئی ہے ۔ اس کو روایتی بردباری سے لینے یا پھر رواداری کے ساتھ برداشت کرنے کی بجائے وزیر اعظم خود کو مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ خود کو لارڈ کرشنا کا بھکت قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ تنقیدوں کا زہر پینے سے بھی گریز نہیں کریں گے ۔ یہ وزیر اعظم ہی تھے جنہوں نے کانگریس لیڈر سونیا گاندھی کے خلاف انتہائی غیرذمہ دارانہ ریمارکس کئے تھے ۔ انہیں کانگریس کی ودواہ اور پچاس کروڑ کی گرل فرینڈ تک قرار دیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے اندر مسلمان رکن کے خلاف بی جے پی کے رکن نے ایسے الفاظ استعمال کئے تھے جو کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے بی جے پی کو ووٹ نہ دینے والوں کو حرامی قرار دیا ۔ یہ سارے ملک کے عوام کی توہین ۔ بی جے پی کو ووٹ نہ دینے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ ان کو حرامی تک کہا گیا ہے لیکن اس پر بھی وزیر اعظم خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اپنی والدہ کے تعلق سے کسی کے ناشائستہ ریمارکس کو بنیاد بناتے ہوئے خود کو مظلوم کے طور پر پیش کرنے والے مودی کو ملک کی کروڑوں خواتین کو حرامی کہنے والوں کو روکنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنا وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ وزیر اعظم کے دوہرے معیارات کا واضح ثبوت ہے ۔
سیاست میں سب سے پہلے تو اختلاف رائے کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ تنقیدوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جانا چاہئے اور کہیں سے کوئی ستائش ہوتی ہے تو اسے ذہن و دل پر طاری ہونے نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اگر تنقید کی جائے تو اسے برداشت کیا جانا چاہئے ۔ تاہم تنقیدوں کے معاملے میں دوہرے معیارات کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ ملک کی لاکھوں بلکہ کروڑوں خواتین اور کروڑوں لوگوں کو گالی دینے والوں کو کرسیوں سے محروم کیا جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ۔ وزیر اعظم کو اس معاملے میں دوہرے معیارات ترک کرتے ہوئے اور خود کو مظلوم ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہوئے ملک کیلئے مثال قائم کرنی چاہئے ۔