سیاسی طنز کا کھیل

   

Ferty9 Clinic

بات تک کرنی نہیں آتی تھی تمہیں
یہ ہمارے سامنے کی بات ہے
اترپردیش کی سیاست ویسے بھی ہمیشہ سے طنز و جوابی طنز کا شکار رہا کرتی ہے ۔ سیاسی قائدین ایک دوسرے پر طنز کسنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ بالواسطہ طور پر ایک دوسرے کو نشانہ بنانے سے یہ قائدین باز نہیں آتے اور اس طرح کے ریمارکس کرتے ہیں جن میں کوئی نام نہیں ہوتا تاہم شناخت ضرور واضح ہوجاتی ہے ۔ آج بھی اترپردیش میں اسی طرح کی صورتحال دیکھنے میں آئی جب چیف منسٹر اترپردیش نے دو نمونے کا ریمارک کیا ۔ چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ نے قائد اپوزیشن لوک سبھا راہول گاندھی اور سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں نمونے ہیں۔ حالانکہ آدتیہ ناتھ نے دونوں میں کسی کا نام نہیں لیا تاہم انہوں نے جس طرح سے اور جس تناظر میں یہ ریمارکس کئے ہیں وہ واضح کرتے ہیں کہ ان کا اشارہ راہول گاندھی اور اکھیلیش یادو کی سمت ہی تھا ۔ ویسے بھی آدتیہ ناتھ اپنے سیاسی مخالفین کے تعلق سے نامناسب ریمارکس نے اور اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے اشتعال انگیز بیان بازی کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ آدتیہ ناتھ نے ہی مسلم خواتین کو قبروں سے نکال کر بے عزت کرنے جیسا بیہودہ ریمارک کیا تھا ۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ ایک ہندو لڑکی کا مذہب تبدیل کرکے شادی کی جاتی ہے تو 10 مسلم لڑکیوںکو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان سے شادیاں رچائی جائیں۔ آدتیہ ناتھ نے ہی اترپردیش میں لو جہاد کے خلاف بیان بازیاں کی ہیں۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ وہ عید نہیں مناتے بلکہ دیوالی مناتے ہیں۔ اس طرح کی بیان بازیاں آدتیہ ناتھ کی شناخت بن چکی ہیں اور وہ چیف منسٹر کے ایک انتہائی اہم اور ذمہ دارانہ عہدہ پر فائز رہتے ہوئے انتہائی غیر ذمہد ارانہ ریمارکس کرتے ہیں۔ جہاں تک قائد اپوزیشن راہول گاندھی کا سوال ہے تو وہ اس طرح کی بیان بازیوںکو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ ہی ان کا جواب دینا یا کسی رد عمل کا اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ راہول گاندھی اپنے ہی بیانات کو واضح انداز میں پیش کرتے ہوئے آگے بڑھنے میں یقین رکھتے ہیں اور مخالفین کی جانب سے کئے جانے والے شخصی حملوں کا کوئی جواب نہیں دیتے ۔
اترپردیش کی سیاست کے مطابق سماجوادی پارٹی سربراہ اکھیلیش سنگھ یادو کا جہاں تک سوال ہے وہ مخالفین پر طنز کرنے اور مخالفین کے شخصی حملوں پر پلٹ وار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور وہ ساری بات کا رخ ہی موڑ دینے میں یقین رکھتے ہیں ۔ ایک سے زائد مواقع پر انہوں نے ایسا کیا بھی ہے ۔ آج چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کے دو نمونے بیان پر بھی اکھیلیش نے اسی سیاسی بصیرت سے کام لیا اور انہوں نے جوابی وار کرتے ہوئے ساری صورتحال کو بدلنے کی کوشش کی ۔ اکھیلیش یادو کا کہنا تھا کہ چیف منسٹر اترپردیش کے بیان سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی میں خود داخلی اختلافات پنپ رہے ہیں اور وہ اب سامنے بھی آنے لگے ہیں۔ حالانکہ اکھیلش سنگھ نے بھی کسی کا نام نہیں لیا لیکن انہوں نے آدتیہ ناتھ کے ریمارکس کو وزیر اعظم اور چیف منسٹر اترپردیش کی سمت موڑنے کی کوشش ضرور کی ہے ۔ اکھیلیش سنگھ یادو نے اپنے رد عمل میں کہا کہ چیف منسٹر کا بیان خود یہ اعتراف کرنے کے مترادف ہے کہ دہلی اور لکھنو کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دستوری عہدوں پر فائز افراد وکو کم از کم اپنے عہدوں کا وقار برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس طرح کے ریمارکس سے باز آنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے ریمارکس اور بیان بازیوں سے ہندوستانی سیاست کے بدلتے رجحانات اور معیارات کا پتہ چلتا ہے ۔ اس طرح کے معیارات اور حالات ہندوستانی سیاست میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے ۔
جو لوگ ذمہ دار اور دستوری عہدوں پر فائز ہیں وہ اگر غیر ذمہ دارانہ بیان بازیاں کرتے ہیں تو اس سے دوسروں کیلئے بھی مثال بنتی ہے ۔ اس طرح کی بیان بازیوں سے ذمہ دار عہدوں پر فائز افراد کو گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خاص طور پر ایک دوسرے پر شخصی تنقیدوں اور حملوں سے گریز کرنا چاہئے ۔ دوسروں کیلئے بہتری کی مثال قائم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستانی سیاست کی جو روایت رہی ہے اس کو برقرار رکھا جانا چاہئے اور منفی سوچ کے ساتھ شخصی حملوں کا سلسلہ بند کیا جانا چاہئے ۔ ہندوستانی سیاست کی یہی روایت رہی ہے اور اس کو برقرار رکھنے کی سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔