سیاسی غنڈہ گردی کی زبانیں

   

سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا
مہاراشٹرا میں لسانی منافرت پھیلانے کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا ہے ۔ سیاسی قائدین ایسی زبانیں بول رہے ہیں جو ان کو ذیب نہیں دیتیں۔ ہندی ۔ مراٹھی کا جھگڑا شدت اختیار کرنے لگا ہے ۔ سیاسی قائدین اس جھگڑے میں تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ ریاست میں سہ لسانی پالیسی اسکولس میں رائج کرنے حکومت کے فیصلے سے سارا تنازعہ شروع ہوا اور شیوسینا ادھوٹھاکرے اور مہاراشٹرا نو نرمان سینا نے اس کی مخالفت کی ۔ احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا ۔رائے عامہ ہموار کی گئی ۔ ایک طرح کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کے بعد حکومت نے حالات کی نزاکت اور سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس پالیسی پر عمل کو معطل کردیا اور کہا گیا ہے کہ ماہرین کا ایک پیانل تشکیل دیتے ہوئے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس طرح سے حکومت نے اس معاملہ پر عوامی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کی تھی ۔ شیوسینا ادھو ٹھاکرے اور ایم این ایس کے راج ٹھاکرے نے اس کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے مشترکہ ریلی منعقد کی ۔ اس ریلی کے ذریعہ دونوں رشتہ دار بھائیوں نے سیاسی اتحاد کے بھی واضح اشارے دیدئے تھے ۔ اس سے مہاراشٹرا کی سیاست میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے ۔ اس ساری سرگرمی کے دوران ریاست میں مراٹھی اور ہندی کے جھگڑے نے شدت اختیار کرلی اور ایم این ایس کے کارکنوں نے حالات کو مزید گرماتے ہوئے ہندی بولنے والے افراد کو نشانہ بنایا ۔ ان کو مار پیٹ کی گئی ۔ اس کے ویڈیوز عمدا وائرل کئے گئے ۔ اس ساری کارروائی کا مقصد حالات کو اپنے رخ پر موڑنے کی کوشش کرنا تھا ۔ ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے نے مارپیٹ کے ویڈیوز نہ بنانے کا اپنے کارکنوں کو مشورہ دیا ۔ اس کے بعد وہی ہوا جس کی سیاسی گوشوںسے کوشش ہو رہی تھی ۔ ماحول کو گرم کرنے میں انہیں کامیابی مل گئی اور اب کئی گوشوںسے ہندی ۔ مراٹھی زبانی جھگڑے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں سیاسی قائدین وہ زبانیں بولنے لگے ہیں جو غنڈہ عناصر کی زبان ہوسکتی ہے سیاست دانوں کی نہیں ۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے ۔
اشتعال انگیز بیانات کیلئے شہرت رکھنے والے راج ٹھاکرے نے اپنے کارکنوں کو ہدایت دی کہ مراٹھی نہ بول پانے والے افراد کو چہرے سے نیچے مار پیٹ کی جائے ۔ ان کا ویڈیو نہ بنایا جائے اور نہ ہی اسے وائرل کیا جائے ۔ یہ ہدایت خود اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ سیاسی قائدین اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ عوام میں مراٹھی ۔ ہندی کی خلیج پیدا کردی گئی ہے اور یہ مسئلہ موضوع بحث بن گیا ہے ۔ اب اس مسئلہ پر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے بھی اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی کوشش کی ہے اور انہوں نے راج ٹھاکرے کو انتباہ دیا ہے کہ اگر وہ بہار ‘ اترپردیش یا کسی اور ریاست کا دورہ کرتے ہیں تو انہیں پٹک پٹک کر مارا جائے گا ۔ یہ سیاسی غنڈہ گری کی زبان ہے ۔ اس کے علاوہ نشی کانت دوبے نے جو متنازعہ بیان بازیوں کیلئے اب شہرت حاصل کرنے لگے ہیں اس مسئلہ کو مزید الجھانے اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دوبے نے راج ٹھاکرے کو چیلنج کیا کہ وہ اردو ‘ ٹامل اور دوسری زبانیں بولنے والے افراد کو بھی مارپیٹ کرکے دکھائیں۔ انہوں نے خاص طور پر ماہیم درگاہ کا ذکر کیا اور کہا کہ وہاں جا کر کسی کو پیٹ کر دکھائیں۔ یہ در اصل نشی کانت دوبے کے ذہن کا فتور ہے جو انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی بات کہی ہے ۔ اس سے ان کی ذہنی پراگندگی اور مسلم دشمنی کا بھی ثبوت دیا ہے اور اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کی کوشش کی ہے تاہم اس کے منفی اثرات کا انہوں نے خیال نہیں کیا ہے ۔
بات ہندی اور مراٹھی بولنے سے متعلق ہو رہی تھی ۔ ماہیم درگاہ کے آس پاس رہنے والے لوگ بھی مراٹھی بولتے ہیں۔ ٹاملناڈو کا نشی کانت دوبے نے حوالہ دیا تو ٹاملناڈو کے مسلمان بھی ٹامل بولتے ہیں۔ کیرالا کے مسلمان ملیالم بولتے ہیں۔ تلنگانہ اور اے پی کے مسلمان تلگو بولتے ہیں ۔ اس طرح وہ بھی اپنی علاقائی زبانوں کی شناخت باقی رکھے ہوئے ہیں۔ یو پی اور بہار کے مسلمان ہندی بولتے ہیں۔ معاملہ کو الجھانے اور مذہبی رنگ دینے کیلئے غنڈہ گردی والی زبان کا استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سے ملک کا ماحول بگاڑنے کی کوشش کو رہی ہیں۔ اس سازش اور سوچ سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔