شرم آتی ہے کہ دشمن کسے سمجھیں محسنؔ
دشمنی کے بھی تو معیار ہوا کرتے ہیں
ہندوستانی سیاست کی یہ روایت رہی ہے کہ اس میں نظریات اور پالیسیوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مخالفت کی جاتی ہے ۔ شخصی اختلاف کو بالائے طاق رکھا جاتا تھا ۔ سیاسی مخالفین پر اگر مشکل آجائے اور کوئی غیر قانونی مسئلہ نہ ہو تو ایک دوسرے کی مدد کرنے کی روایات بھی ہماری سیاست میںموجود رہی ہیں۔ تاہم حالیہ وقتوں میں یہ دیکھا جانے لگا ہے کہ انتہائی اوچھی سوچ رکھنے والے افراد بھی ہندوستانی سیاست کا حصہ بن گئے ہیں اور وہ اخلاقیات اور روایات کی پاسداری کرنے کی بجائے سیاسی مخالفت کو شخصی عناد اور مخالفت میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھنے لگے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاسی مخالفت کے باوجود ملک کی سیاست میں سرگرم ہر جماعت اور ملک میں قائم ہونے والی ہر حکومت نے ملک اور قوم کی ترقی کیلئے اپنے حصے کا کام ضرور کیا ہے ۔ کسی نے کم یا کسی نے زیادہ کیا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم حالیہ وقتوں میں دیکھا گیا ہے کہ سیاسی مخالفت کو شخصی دشمنی کا رنگ دیتے ہوئے انتہائی غیر معیاری الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اخلاقی حدود کو پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ہے اور ان سب کا واحد مقصد سیاست اور سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی رہ گیا ہے ۔ سیاست اپنی جگہ ہے لیکن اخلاقیات کی حدود کو پھلانگنے سے ہر کسی کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاست ایک ایسی دنیا ہے جس میں ہر شخص اپنے سیاسی فائدہ کی سوچ رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستانی روایات اور اخلاقیات کا دامن تھامے رہنا چاہئے ۔ حالیہ دنوں میں بی جے پی کے کچھ ارکان پارلیمنٹ کا طرز عمل ہندوستانی روایات اور اخلاقیات سے پرے دیکھا گیا ہے ۔ خود پارلیمنٹ کے اندر بی جے پی کے ایک رکن رمیش بدھوری نے بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ دانش علی کے خلاف جو زبان اور لب ولہجہ اور جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ انتہائی افسوسناک تھے ۔ اب بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے ترنمول کانگریس کی رکن مہو موئترا کے خلاف ایوان میںسوال پوچھنے کیلئے رقومات حاصل کرنے کا الزام عائد کردیا ہے ۔ اس تعلق سے کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کئے گئے ۔
عام آدمی پارٹی قائدین اور چیف منسٹر اروند کجریوال کی جانب سے جب بی جے پی کے قائدین پر عآپ قائدین کو خریدنے کی کوشش کے الزامات عائد کئے گئے تو یہ پوچھا جاتا تھا کہ اس کے ثبوت و شواہد کیا ہے ۔ میڈیا میں ثبوت و شواہد پیش کرنے کو کہا جاتا تھا ۔ ہمارا زر خرید تلوے چاٹو میڈیا بھی یہی سوال کرتا تھا ۔ تاہم اب جبکہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے ایک اور رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کے خلاف اس قدر سنگین الزام عائد کیا ہے تو انہیں بھی چاہئے تھا کہ وہ یہ الزام عائد کرتے ہوئے ثبوت و شواہد پیش کردیتے ۔ میڈیا اور دیگر ذمہ دار اتھارٹیز کو ان ثبوت و شواہد سے واقف کروادیتے ۔ تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا اور صرف الزام تراشی پر ہی اکتفاء کیا ہے ۔ مہوا موئترا نے اس الزام کے جواب میں نشی کانت دوبے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے ۔ یہی درست طریقہ ہے کیونکہ میڈیا میں الزا م یا جوابی الزام عائد کرنے کی بجائے عدالتی راستہ اختیار کرنے کی ضروت ہے ۔ نشی کانت دوبے نے جس کمپنی کی تائید کرنے کا مہوا موئترا پر الزام عائد کیا ہے خود اس کمپنی نے بھی ایسے کسی لین دین سے انکار کردیا ہے ۔ دوبے کے بموجب موئترا نے اڈانی کی مخالفت میں ہیرا نندانی گروپ کی تائید کی ہے ۔ جب خود ہیرانندانی گروپ نے اس کی تردید کردی ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ نشی کانت دوبے خود کسی کمپنی یا ادارے کی مدد کیلئے مہوا موئترا پر اس طرح کے الزامات عائد کر رہے ہیں اور اس کمپنی کیلئے بازار میں مقابلہ ختم کرنے کیلئے کسی اور ادارے کو نشانہ بنا رہے ہیں ؟۔
سیاست میں کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کو منظر عام پر لایا جانا چاہئے ۔ رشوت اور بدعنوانیوں کی کوئی گنجائش نہیںہونی چاہئے ۔ غیر قانونی رقمی لین دین کا سلسلہ بند ہونا چاہئے لیکن کسی ثبوت کے بغیر کسی کے خلاف محض سیاسی مخالفت یا عداوت کی بنیاد پر یا خود کسی ایک ادارہ کو فائدہ پہونچانے کیلئے دوسرے کو نشانہ بنانے سے بھی گریز کیا جانا چاہئے ۔ سیاسی مخالفت میںاخلاقیات اور معیارات کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے ۔ جب تک ایک دوسرے کا احترام نہ کیا جائے اور کسی کو سیاسی مفاد کیلئے رسواء کرنے کا سلسلہ نہیں روکا جاتا اس وقت تک ہندوستانی سیاست کی قدیم اور مثبت روایات کا تحفظ ممکن نہیں ہوسکے گا ۔