محمد نصیرالدین
تحریک آزادی ہند بلاشبہ ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ایک ایسی پرامن جدوجہد جس میں بلا تفریق فرقہ و مذہب تمام باشندگان ملک شریک رہے۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی سب اتحاد و اتفاق کے ساتھ انگریزوں کے خلاف کھڑے ہوئے اور ملک کو آزادی دلائی۔ تحریک آزادی کی دوسری اہم خصوصیت یہ تھی کہ دینی مدارس اور علمائے کرام نے اس جدوجہد میں غیرمعمولی رول ادا کیا۔ محمد علی جوہر، حسرت موہانی، علی برادران، سید احمد شہید، مولانا فضل حق خیرآبادی، عبیداللہ سندھی و دیگر کئی علماء جہاں جدوجہد آزادی میں پیش پیش تھے۔ وہیں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء سمیت ملک کے تمام دینی مدارس کے طلباء شریک رہے۔ جدوجہد آزادیٔ ہند کا مطالعہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ تحریک آزادی میں ہندو اور مسلمان شیر و شکر بن کر مصروف رہے۔ نفرت، تعصب، دشمنی اور اختلاف کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ برصغیر کی یہ بدقسمتی رہی کہ انگریزوں نے ہندوستان کو چھوڑتے ہوئے ملک کے دو ٹکڑے بھی کردیئے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ نفرت و دشمنی کی دیواریں بھی کھڑی کردیں۔ چنانچہ آزادی کے ساتھ ہولناک فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ نفرت و تعصب پھیلتا گیا۔ جن کو پاکستان جانا تھا وہ وہاں چلے گئے اور جنھیں ہندوستان آنا تھا وہ پاکستان سے ہندوستان ہجرت کرلئے۔ آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی تنظیمیں جوکہ جدوجہد آزادی سے کوسوں دور تھے پاکستان کے قیام کو قبول کرنے ہرگز تیار نہیں ہوئے اور انھوں نے یہ نظریہ پیش کیاکہ مسلمانوں کے لئے پاکستان بن چکا ہے، اب ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کو پاکستان چلے جانا چاہئے۔ اس فاشسٹ نظریہ کو لے کر آر ایس ایس والوں نے عوام میں زہر گھولنے کا کام کیا اور عوام کے ذہن و دماغ میں نفرت و تعصب کے بیج بونے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا اور یہ سلسلہ گجرات کی نسل کشی تک بھی مسلسل جاری رہا۔ آر ایس ایس اس بات کو قطعی نہیں مانتی کہ انسانی جان محترم ہے اور عوام کے مال و اسباب کا نقصان دراصل ساری قوم و ملک کا عظیم نقصان ہے بلکہ وہ انتقام میں اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ ملک کی سالمیت و سلامتی کی بھی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ چنانچہ اپنی نفرت و تعصب کی جڑوں کو انھوں نے اتنا مضبوط کیاکہ آج وہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ آج جب پارلیمنٹ میں انھیں اکثریت حاصل ہوگئی تو اپنے انتقامی ایجنڈہ پر عمل درآمد کرنے میں وہ لگ گئے ہیں۔ طلاق ثلاثہ بل، دفعہ 370 کے بعد شہرت ترمیمی بل لاکر اُنھوں نے اپنی فرقہ پرستانہ ذہنیت کو آشکار کردیا۔ حالانکہ آر ایس ایس کو اس بات کا علم ہے کہ مسلم قوم نے پاکستان جانے کے ان کے مطالبہ کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ ہندوؤں میں ضم ہونے یا اپنے دین سے دستبردار ہونے کے ان کے مطالبہ کو بھی کسی بھی قیمت پر قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ وہ قوم ہے جس نے ہزاروں افراد کے خون کا نذرانہ دیا، اپنے مال و اسباب کے لٹنے کو گوارا کیا لیکن آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو ماننے سے صریح انکار کردیا۔ باوجود اس کے انھوں نے شہریت ترمیمی بل کے ذریعہ ایک گھناؤنی سازش کا آغاز کیا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ اس قانون کے ذریعہ مسلم قوم کو کتنا دبایا یا پسپا کیا جاسکتا ہے۔ کہ مسلم قوم سر اُٹھاکر جینے کی اپنی عادت سے دستبردار ہوتی ہے یا نہیں اور مسلم قوم کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کا ان کا مذموم منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے یا نہیں؟
شہریت ترمیمی بل نے خوش قسمتی سے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو پھر مجتمع ہونے اور متحدہ جدوجہد کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ فرقہ پرستوں کی نفرت و تعصب کی دیواریں گرنے لگی ہیں۔ تعصب نفرت اور غلط فہمیوں کی فضاء چھٹنے لگی ہے۔ چنانچہ اس سیاہ بل کے خلاف سارے ملک کے جہاں مسلمان اُٹھ کھڑے ہیں وہیں انصاف پسند غیر مسلم اور دلت طبقات بھی اس جدوجہد میں شانہ بہ شانہ شامل ہیں۔ ملک کی بدلتی فضاء دیکھنے کے بعد اس بات کا شدید افسوس ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد سے اگر مسلمان برادران وطن سے ایسے تعلقات استوار رکھتے اور ان کے ساتھ رشتہ بنائے ہوئے ہوتے تو آج سیاہ بل کے منظور ہونے کا موقع ہی نہ آتا۔ دیر آئے درست آئے کہ مصداق اس سیاہ بل نے سارے ملک میں ایک مثبت اور انقلابی بیداری کا کام کیا ہے۔ ہر شہر اور ہر ریاست میں اس بل کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں دیگر اقوام اور طبقات کی شرکت جہاں خوش آئند ہے وہیں اس بات کی متقاضی ہے کہ آپسی میل جول اور میل ملاپ کے اس سلسلہ کو مزید منظم اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ میں اس حقیقت کو بھی ان کے سامنے رکھنے کی شدید ضرورت ہے کہ دنیا میں بالخصوص ہندوستان میں جو تفریق، عدم مساوات، بھید بھاؤ، ناانصافی اور ظلم و زیادتی پائی جاتی ہے وہ اس وقت تک مکمل ختم نہیں ہوسکے گی جب تک کہ خالق کائنات کی ہدایت و رہنمائی پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ شراب، سود، جوّا، قتل و غارت گری نے سارے معاشرہ کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا ہے۔ بیوہ کی شادی، ترکہ میں عورت کا حصہ، دوسری شادی کی اجازت، طلاق و خلع کی سہولت، والدین کے حقوق، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک جیسے اہم اُمور کو لے کر سارا سماج اور معاشرہ بکھر چکا ہے۔ دھوکہ، فریب، جعلسازی، بے ایمانی اور رشوت نے معاشی میدان میں بحران پیدا کردیا ہے۔ روحانی چین اور سکون کے حصول کے لئے آج کا انسان بے شمار مذہبی رسوم اور پوجا پاٹ میں لگا ہوا ہے لیکن امن چین اور دلی سکون کی دولت سے وہ محروم ہی ہے۔ ایسے میں سکون و چین اور حق و انصاف کی متلاشی روحوں کو یہ بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ ’’آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع و فرمان ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔ شہریت کا مسئلہ یقینا تشویشناک ہے۔ شہریت کے ختم ہونے کو لے کر لوگ بے چینی اور تناؤ میں گرفتار ہیں۔ کیا اہل ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اپنے اہل وطن بھائیوں کو دو ٹوک انداز میں بتائیں کہ شہریت کے مسئلہ سے اہم مسئلہ خالق کی پہچان اور اطاعت کا مسئلہ ہے جس میں انسانوں کے تمام مسائل کا حل بھی ہے۔ فرقہ پرستوں نے آزادی سے لے کر آج تک ہندوؤں اور مسلمانوں کو ملنے نہیں دیا۔ دونوں فرقوں کے درمیان دوریاں پیدا کرتے رہے۔ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں کھڑی کرتے رہے، اہل ایمان کی غلط تصویر برادران وطن میں بناتے رہے تاکہ اختلاف و انتشار سے ان کے منصوبوں کی کامیابی میں مدد مل سکے۔ شہریت ترمیمی بل کی وجہ سے تمام مذاہب اور فرقہ کے لوگوں کے درمیان تعلقات و روابط کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ہر طرف مشترکہ جدوجہد نظر آرہی ہے۔ اتحاد و اتفاق کا ماحول بن رہا ہے۔ ایسے میں نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جو بات کہی تھی آج اُمت مسلمہ کے لئے خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ ’’ائے پیغمبرؐ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے لوگوں تک پہنچادو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پیغمبری کا حق ادا نہ کیا‘‘۔ اللہ کی ہدایت اور یہ حکم تاقیامت اہل ایمان کے لئے سخت وعید ہے۔ آج سیاہ بل کے خلاف جدوجہد میں برادران وطن سے تعلقات بنائے جارہے ہیں، مشترکہ جدوجہد کی جارہی ہے اور روابط استوار کئے جارہے ہیں۔ لیکن مذکورہ وعید کو نظرانداز کردیا گیا یا توجہ نہیں دی گئی تو کہیں یہ رب کائنات کی عدول حکمی نہ بن جائے اور رضائے رب سے محرومی کا باعث نہ بن جائے۔
اہل ایمان کے نزدیک دنیاوی معاملات و مسائل، بے وقعت ہوتے ہیں اس کی نظر رضائے الٰہی اور فلاح آخرت پر ہوتی ہے۔ نعمت ایمان کو پانے کے بعد بھی اہل ایمان نے اپنے وطنی بھائیوں کو اس نعمت سے محروم رکھا۔ موجودہ حالات ایک اچھا موقع فراہم کرتے ہیں کہ برادران وطن تک خالق کائنات کا پیغام بلا کم و کاست پہنچادیا جائے تاکہ وہ دربار الٰہی میں شکایت نہ کرسکیں کہ ان لوگوں نے شہریت بل کے سلسلہ میں تو ہم سے ربط پیدا کیا لیکن آپ کے پیغام سے ہم کو محروم ہی رکھا۔ داعی حق صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ دین حق کو بلا کم و کاست انسانیت تک پہنچادیں۔ کاش ملت اسلامیہ اس سلسلہ میں متوجہ ہوسکے !!
ہم تو بلند کرتے رہیں گے تیرا عَلَم
حق سے گریز شیوۂ اہل وفا نہیں